پُر نور علمی وَ رُوحانی سائبان

محمد اشرف حسین بھٹی

اس دنیا میں کچھ نفوس ایسے بھی ہیں جن کی زندگی روزِروشن کی طرح عیاں ہوتی ہیں۔ان میں بیک وقت سخاوت،رحم دلی،انسانیت کی بے لوث خدمت،جابر حکمران کے سامنے کلمہ ءِحق کہنے کی جرأت جیسی صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک ایسی ہی عظیم روحانی شخصیت ،شریعت کی پابند،دینی اور دنیاوی تعلیم کی دولت سے مالا مال ،چال میں متانت طبیعت میں سخاوت ،چہرے پر نورانیت ،لطیف باطن ،پاکیزہ کردار ،عہد و پیما کے پیکر جن سے بندہ ناچیز کی بارہ سال سے وابستگی ہے۔ اس عظیم ہستی سے بندہ نے روحانی فیض حاصل کیا۔اس پُر فتن دور میں ایسی ہستیوں کا ملنا مشکل ہے ۔کچھ نام نہاد لوگ چاہتے ہیں کہ مریدین کا ٹولہ ان کے آگے پیچھے رہے۔اور وہ جلد مشہور ہو جائیں۔ ایسے لوگ دوسروں کے ایمان کی بربادی کا باعث بنتے ہیں ۔جس ہستی کا میں ذکر کرنے والا ہوں وہ ان تمام الائشوں سے دور ہیں۔اللہ ربُّ الْعِزَّت کا ان پر خاص کرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے رسول اور نبی بھیجے۔یہ سلسلہ جنابِ آدم علیہ السلام سے لےکر جنابِ رسالت ماٰ ب ﷺ تک چلتا رہا۔سرکارِ دو جہاں ﷺ خَاتَمُ النَّبِیِّینْ ہیں۔آپﷺکےبعدنبُوَّت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا آپﷺ کے بعد رشد و ہدایت کا سلسلہ اہلِ بیت ،صحابہ کرام ، آئمہَّ کرام کے بعد اولیاءاِ کرام کے ذریعے ابھی تک جاری ہے۔

یہ راز کسی کو معلوم نہیں کہ مومن

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

میں جس ہستی کا ذکر کرنے والا ہوں ان کا نام حافظ سلمان مرزا حافظ ہے۔چونکہ آپ حمد،نعت ِپاک اور عارِفانہ کلام بھی لکھتے ہیں اس لیے حافظ آپ کا تخلص ہے۔ جنابِ حافظ سلمان مرزا صاحب سے 2009 ء میں میری پہلی ملاقات ملتان کے ایک معروف ہوٹل میں ہوئی۔ آپ ملتان میں اولیاءاِکرام کے مزارات کی زیارات کےلیے تشریف لاتے تھے۔میری اس ہوٹل میں ریسیپشن پر ڈیوٹی تھی۔میری بابا جی سے ملاقات کا سبب سید محمد اسد شاہ صاحب بنے۔ اسدبھائی اس وقت ملتان ڈائیوو ٹرمینل میں ملازم تھے۔اللہﷻ اِن کو سلامت رکھے۔میں بابا جی کو دیکھتے ہی ان کا دل سے گرویدہ ہو گیا۔لیکن میں نے اس کا اظہار نہ کیا۔اگر لگن سچی ہو ، جُستُجو ہو ،تو انسان وہ چیز پا لیتا ہے۔جس کی وہ خواہش رکھتا ہو۔اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے :’’انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرے‘‘۔بابا جی بھی میری روحانی طلب کو بھانپ گئے۔میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ ان کی طرف خود بخود راغب ہوتے ہیں اور ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔بابا جی ان باتوں سے ذرا پرہیز کرتے ہیں۔کیوں کہ مجھ سمیت لوگوں کی اکثریت دنیا دار ہے۔ہم لوگ دنیااور مال و دولت چاہتے ہیں ناکہ اپنا من صاف کرنا۔ اپنے نفس کو لگام دینا مشکل کام ہے۔ یہاں بابا جی کا شعر یاد آرہا ہے ۔فرماتے ہیں:

گرتے ہیں سجدوں میں ہم اپنی ہی حسرتوں کی خاطر

اگر گرتے صرف خوفِ خدا میں تو کوئ حسرت ادھوری نہ رہتی

روحانیت کی الگ ہی دنیا ہے۔روح صاف ہو تو انسان کو کشف ہوتا ہے ۔جب سے میری ان عظیم ہستی سے وابستگی شروع ہوئی تو میں ان کو کبھی سائیں جی تو کبھی سرکار کے القاب سے مخاطب کرتا۔ایک دن حافظ صاحب ارشاد فرمانے لگے:اشرف بیٹے تم مجھے (بابا جی) کہہ کر مخاطب کیا کرو۔فرمانے لگے بیٹا لفظ ’’سرکار‘‘رسولِ پاک ﷺ سے منسوب ہے۔اس لفظ سے کسی اور کو مخاطب کرنا اس لفظ کی بے ادبی ہے۔یہ لفظ صرف اور صرف رسولِ پاکﷺ کےلیے مخصوص ہے۔ ارسلان احمد ارسل کا شعر ہے جو انہوں نے بابا جی کی عاجزانہ شخصیت پر لکھا:

جب ندامت سے بہایا اشکوں کو سلمان نے

یوں لگا کہ ہو گیا راضی خدا سلمان پر

آپ نے ہمیشہ توحید کا درس دیا ہے۔جو کہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔آج کل عقائد پر بہت حملے ہو رہے۔اگر راہنما کامل ہو تو انسان گمراہ ہونے سے بچ جاتا ہے۔ جب سے بابا جی سے وابستگی ہوئی ہے میری زندگی میں بہت تبدیلی واقع ہوئی ہے۔جب کبھی مجھے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو میں بابا جی سے عرض گزار ہوتاہوں تو وہ مجھے قرآنی آیات اور اسما ءُ الحسنیٰ میرے مسائل کی نسبت سےپڑھنے کو دیتے ہیں۔جن کے پڑھنے سے میری مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔مجھے ارسلان احمد ارسل کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔

لفظ چھوٹے پڑ رہے ہیں آج تو اظہار کو

ورطہءِ حیرت میں ہوں لکھوں میں کیا سلمان پر

2018 ء میں اللہ کے فضل سے میں نے اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ کی سعادت حاصل کی۔جس دن ہماری آمد تھی اس سے اگلے دن مجھے ملنے کے لئے ملتان تشریف لائے۔ آپ نے مجھے اور میرے دو بیٹوں کو ملتان کے ایک اچھے ریسٹورنٹ میں مدعو کیا۔ہمارے ساتھ جنابِ سید اسد شاہ صاحب بھی تھے۔عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی مبارک باد دی۔کھانا کھلایا۔ایک ایک سوٹ دیا۔میں کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ آپ اسلام آباد سے یہاں ملتان آتے ہیں۔آپ ہمارے مہمان ہوتے ہیں۔ہمیں خدمت کرنی چاہیے۔بابا جی فرماتے ہیں کہ آپ میرے بچوں کی طرح ہو۔حفظِ وضع کو آپ نے کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ آپ نےہمیشہ اپنی بساط کے مطابق مخلوقِ خدا کی حتی الامکان مدد کی ہے۔ارسلان احمد ارسل نےبابا جی کی شخصیت پر کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔

کام آتے ہیں ہمیشہ دوسروں کے ہر گھڑی

یہ بھی ہے سرکارِ دو عالم ﷺ کی عطا سلمان پر

بابا جی ایک دفعہ ملتان تشریف لائے۔میری اہلیہ کہنے لگیں کہ آپ بابا جی سے درخواست کیجئے گا کہ گھر تشریف لائیں ۔میں نے کہا میں بابا جی کے مزاج کو جانتا ہوں وہ نہیں آئیں گے۔ اہلیہ کہنے لگیں کہ آپ بابا جی کو ہمارا پیغام دے دینا۔میں نے کہا ٹھیک ہے۔میں نے بابا جی کو پیغام دے دیا۔آپ پیغام سن کر مسکرا دیے۔رات کو میری اہلیہ خواب میں دیکھتی ہیں کہ بابا جی ہمارے گھر آئے ہیں۔کچھ دیر بیٹھ کر آپ تشریف لے جاتے ہیں۔یہ خواب میں نے باباجی سے بیان کیا۔ فرمانے لگے: بس بیٹا آپ کی بیوی کی خواہش تھی، ان کو روحانی طور پر زیارت ہو گئی ۔بس اب گھر آنے کو کبھی نہیں کہنا۔میں نے کہا بہتر بابا جی۔میرا ایمان ہے کہ بابا جی پر محمدﷺ اور آلِ محمد ﷺ کی نظرِ کرم ہے۔ خالقِ کائنات کے فضل و کرم سے بابا جی کو کشف القلوب حاصل ہے ۔جو کہ ہر کسی کے نصیب کی بات نہیں۔ جو اللہ کے کاموں میں لگ جاتا ہے ا للہ اس کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے۔ ایک مرتبہ بابا جی ملتان تشریف لائےہوئے تھے۔میرے دل میں کچھ سوالات تھے۔کوئی موقعہ نہیں بن رہا تھاکہ سوالات پوچھے جائیں۔بابا جی سے نشست ہوئی۔جو سوالات میرے ذہن میں تھے ان کا تذکرہ بھی نہ کیا اور میرے سوالات کے جوابا ت دینا شروع کر دیے۔میں ششدر رہ گیا ۔اسد بھائی ساتھ تھے ۔میں نے ان سے کہا جو سوالات میرے ذہن میں تھے بابا جی نے ان سب کا جواب دے دیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میری گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ ایک ماہ سے رکی ہوئی تھی ۔یہ بتاتا چلوں کہ میں ایک پرائیویٹ سکول ٹیچر ہوں۔ پرنسپل صاحب آج اور کل کا کہہ کر ٹال دیتے تھے۔تقریباً چھے ماہ ہو چلے تھے۔بابا جی سے میں نے اس بارے میں بات کی۔باباجی نے پوچھا سیلری کتنی ہے؟میں نے بابا جی کو سیلری بتائی۔انہوں نے اسی وقت اپنی پاکٹ مبارک سے پیسے نکال کر دیتے ہوئے یہ فرمایا کہ اب پرنسپل سے سیلری کے پیسے نہیں مانگنے اور وہ دے گا بھی نہیں۔ اللہ بابا جی کو سلامت رکھے۔کیا روحانیت پائی ہے۔ ارسلان احمد ارسل کا بابا جی سے عقیدت بھرا شعر ہے۔کہتے ہیں:

میں دعا کرتا ہوں دل سے حشر میں راضی رہیں

مصطفیٰ و مرتضیٰ، خیرالّنسا سلمان پر

کچھ عرصہ گزرا میرے ساتھی ٹیچرز نے تعطیلات کی سیلری لی۔کئی اور ٹیچرز بھی رہ رہے تھے ۔میں نے سوچا کہ مانگ کر دیکھوں شاید مل جائے۔جب مانگنے گیا تو انھوں نے کچھ دنوں کا کہہ کر ٹال دیا۔آپ یقین کریں پرنسپل نے بچوں کے ہوم ورک کی غلطیاں نہ نکالنے کا بہانہ بنا کر نوکری ہی سے نکال دیا۔مجھے اس وقت بابا جی کی وہ بات یاد آگئی کہ پرنسپل تمہیں سیلری نہیں دے گا اور نہ ہی مانگنی ہے۔مجھے اس وقت شدید احساس ہوا کہ بابا جی کی نصیحت پر عمل نہ کر کے حماقت کی ہے۔بڑی مشکل سے دوست احباب کی کوششو ں سے نوکری بحال ہوئی۔ باباجی فرماتے کہ وہ پیدائشی شاعر نہیں ہیں۔لیکن اللہ پاک کا کرم ہے ان پر کہ انہوں نے بہت ساری حمد،نعت ،مضامین اور نظمیں لکھی ہیں۔وہ ہمیں گفٹ بھی کرتے رہتے ہیں ان تحریروں میں: حمد۔ حمدوثناء جاری و ساری ہے خالق کائنات کی ۔ دعا۔ گرتے ہیں سجدوں میں ہم اپنی ہی حسرتوں کی خاطر دعا۔ تمہیں آرزو کے دیے جلا کے رکھنا ہے دعا۔ میری دعا ہے کہ تو بن کے علم کاچراغ رہے دور حاضر میں اصل نعت کی روایت کی درسگاہ کلیات مظہر میں’’حافظ مظہرالدین مظہر‘‘ کی شخصیت دنیا کیوں کر اور کیسے وجود میں آئی ’’حُضُور و سُرور‘‘ میں سید منظور الکونین شاہ صاحبؒ کی شخصیت پر تحریر’’نعت خوانوں میں واحد شفاف آئینہ‘‘ اللہ کا مخلوق سے اور مخلوق کا اللہ سے تعلق دعا عبادت کا مغزہے کچھ غور طلب اور تلخ حقائق تدریسی علم سے روحانی علم و معرفت کا حقیقی سفر ارسلان احمد ارسل کا عقیدت بھرا شعر ہے۔کہتے ہیں:

دیکھا جب سلمان کا نورانی چہرہ پہلی بار

ہو گیا تھا اس گھڑی ارسل فدا سلمان پر

بابا جی نے مجھے اپنی مُحَبَّتوں سے بہت نوازا ہے۔میں ان کا بہت مشکور ہوں کہ انہوں نے اس بندہ نا چیز کو شرفِ قبولیت بخشا ہے۔اللہ ربُّ الْعِزَّت ہمارے بابا جی کو سلامت رکھے۔آپ کا سایہ ہم پر دیر تک قائم رہے۔صحت و عافیت والی زندگی نصیب ہو۔ حاسدین کے حسد اور نظرِ بد سے آپ کو محفوظ رکھے۔ مالکِ کائنات آپ کے گھر کو شاد و آباد رکھے۔آل اولاد میں برکتیں عطا فرمائیں آمین ایسی صالح ہستی پر صالحین بھی رشک کرتے ہیں۔ارسلان صاحب کیا خوب فرماتےہیں:

ناز کرتے ہیں زمانے بھر کے سارے صالحین

رشک کرتے ہیں جہاں بھر کے پارسا سلمان پر

آخر میں، میں عبداللہ لیاقت صاحب کے لیے دعا گو ہوں ہمارے مرشدِ کامل پر کتاب مرتَّب کرنے کی کاوش کی ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی و نصرت عطا فرمائے۔۔۔۔آمین