وقتِ حاضر کا گوہرِ نایاب ایک نورانی چہرہ

محمد اسد شاہ

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ سیر ت و کردار سے پھیلا ہے۔ جہالت کے ظلمت کدے میں اسلام کا نور پھیلانے والے اولیائے کرام اور صوفیائے عُظَّام ہیں ۔ان نُفُوسِ قُدسِیّہ نے عظمتِ اسلام اور توحید و رسالت کے پرچم لہرائے اور بھولی بھٹکی اِنسانیت کو خدائے واحد کے آگے سر بسجود کیا۔ یہ مردانِ خدا اور وارثانِ عُلومِ مصطفیٰﷺ ہیں کہ آج بھی ان کے وجود کے فیوض و برکات سے انسانیت سکون و طمانیت اور راحت و سکون پا رہی ہے۔ جو بادشاہت جسموں پر قائم ہے وہ بڑی فانی اور زوال پذیر ہے مگر ان فقیروں کے اقتدار و اختیارات کے کیا کہنے ۔ ان کا سکہ تو دلوں کی نگری میں چلتا ہے اور ان کی بادشاہت توروحوں کی دنیا میں قائم ہے۔ ان کا فیض ہر وقت ہر عام و خاص کے لیے جاری و ساری ہے تاریخِ اسلام کے دامن میں ہزار ہا ایسے گوہرِ نایاب پوشیدہ ہیں جن کے دم سے کائنات کی رنگینیاں قائم ہیں۔ اولیائے کرام اللہ پاک کے پسندیدہ بندے ہوتے ہیں۔ ان کی ساری زندگی اللہ و رسول اللہ ﷺکی یاد میں گزرتی ہے اللہ پاک اپنے ان نیک بندوں ، اولیائے کرام پر اپنی رحمتوں کی برسات فرماتارہتا ہے۔ اولیاءا کرام کی شان و عظمت کے لیے یہ قرآنی آیت ہی کافی ہے۔ سورۃ-يونس آيت٦٢ اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ترجمہ : ’’سنو اللہ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘ آج مجھے جس ہستی کے بارے میں لکھنے کا موقع ملا ہے بے شک اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں میں سے ایک ہیں۔ اس گوہرِ نایاب کا نام حافظ سلمان مرزا صاحب ہے۔کلمہءِ حق آپ کا پیغام ، صلح جوئی آپ کا مسلک ، مُحَبَّت آپ کا اثاثہ، عشق ِرسو لﷺ آپ کا ایمان اور خدمتِ خلق آپ کا شعار ہے۔ آپ نے اسلامی تہذیب و معاشرت، دینی نظریہءِ حیات ، اخلاقی اقدار اور روحانی انقلاب کے ذریعے ہم جیسے لوگوں کو نئی رِفْعَتَوں سے روشناس کرایا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ آج کے اس ظلمت کدہ دور میں جنابِ حافظ سلمان صاحب جیسے بندوں کی موجودگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول جاری و ساری ہے۔ جنابِ حافظ سلمان صاحب سے میری پہلی ملاقات اگست 2008ء میں کراچی میں ہوئی ۔ جب آپ اپنے ایک چاہنے والے عقیدت مند الطاف حسین صاحب جن کی حال ہی میں ڈائیوو کمپنی میں بطور منیجر کراچی میں پہلی بار پوسٹنگ ہوئی تھی ان سے ملنے کراچی ٹرمینل پر تشریف لائے۔ آپ کا نورانی چہرہ ، وضع دار طبیعت اور سحر انگیز شخصیت کو دیکھتے ہی میں تو آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ کیونکہ اللہ ربُّ الْعِزَّت صبر و ضبط ، اخلاص، ایثار ، تحمل ، عزم واستقلال اور استقامت کے اوصافِ صالحہ کے حاملین کو عزّت و عظمت سے سرفراز فرماتا ہے ۔ اس لیے جنابِ حافظ صاحب کی روحانیت اور تَصَوُّف سے ہر عام و خاص اپنے ظرف کے مطابق فیض پارہا تھا ۔ میں اس وقت منیجر آفس میں جونیئر ایگزیکٹو کی سیٹ پر کام کر رہا تھا اِتَّفاق سے ایک دن قبل میری ڈرا سے کسی نے کچھ کیش چوری کر لیا تھا اور اس دن میں بہت پریشان تھا۔ جنابِ حافظ صاحب نے اپنی روحانیت سے میری پریشانی کو بھانپ لیا اور مجھ سے کہا کہ بیٹے کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے؟ حالانکہ میں بظاہر کسی قسم کی پریشانی کا اظہار نہیں کر رہاتھا۔ جنابِ حافظ صاحب کے اصرار کرنے پر جب میں نے اپنی داستان بیان کی تو آپ نے مجھے حوصلہ دیتے ہوئے میری مالی اِعَانت بھی فرمادی اور بڑے وثوق سے فرما دیا کہ یہ کام میرے ساتھ بیٹھے ہوئے کو لیگ نے کیا ہے ۔ بعد میں کیمرے سے ثابت بھی ہوگیا اور وہ آدمی انکوائری کے بعد نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ یہ سب آپ کی روحانیت کی کرامت تھی کیونکہ اللہ نے آپ کو کَشْف عطا فرمایا ہے اور یقیناً آپ پر اللہ کی خاص کرم نوازی ہے۔ اس مختصر سی ملاقات میں جنابِ حافظ صاحب کی خاص نظرکرم مجھ پر پڑی اور میری تو دنیا ہی بدل گئی۔ میں نے اپنی زندگی میں آپ جیسا نیک انسان ، خوش گفتار اور خدمتِ خلق کرنے والا بندہ آج تک نہیں دیکھا ۔ آپ چونکہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں اس لیے ہمیشہ آپ نے توحید کا درس دیا ہے اور رسو ل اللہ ﷺاور اس کی آل سے مُحَبَّت کا پیغام آپ کا وصف رہا ہے۔ آپ کے سینے میں اللہ کا کلام محفوظ ہے اورآپ نے قرآن سے ہمیشہ ہماری رہنمائی فرمائی۔ مایوس دلوں میں ایمان کی روشنی اور اللہ پر توکل کرنا اور اس کا شکر گزار بندہ بننا ہم نے جنابِ حافظ صاحب سے سیکھا ہے۔ جس طرح آپ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں ان کی دل جوئی کرتے ہیں ان کے مسائل سن کر ان کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے کا درس دیتے ہیں اسی وجہ سے آپ آج کے دورمیں اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی لسٹ میں بہت بلند مقام رکھتے ہیں ۔ جنابِ ارسلان احمد ارسل ؔصاحب نے حافظ صاحب پر کیا خوب لکھا ہے۔

ناز کرتے ہیں زمانے بھر کے سارے صالحین

رشک کرتے ہیں جہاں کے پارسا سلمان پر

بے شک تمام جہانوں کا مالک اور خالق صرف اور صرف اللہ پاک ہے۔ اور جیسا کہ حدیثِ قُدسی میں ہے کہ اللہ پاک نے اپنی پہچان کے لیے یہ دنیا خلق فرمائی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام اپنے نبیوں اور رسولوں کو مقرر فرماکر تمام انسانوں تک پہنچایا۔ جب اللہ کریم کے احکامات اس کی مخلوق تک پہنچانے میں اس مالک کے مقرر کردہ نمائندے وسیلہ بنتےہیں تو یہ لازم ہے کہ مخلوق کا اللہ سے تعلق قائم کرنے میں اللہ تعالیٰ کے خاص انعام یافتہ بندے بھی اس میں وسیلہ بنتے ہیں۔ اللہ پاک نے خود قرآن میں بھی فرمایا ہے کہ "اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو" میرا تو یہی ایمان ہے کہ ہمارا سب سے بڑا وسیلہ تو آقائے نامدار حضرت مُحمَّدﷺ ہیں اور پھر آگے آج کے دور میں وہ لوگ جن پر اللہ اور اس کا رسولﷺراضی ہوں۔ ان کے وسیلے سے ہم اپنے اللہ کے قریب جا سکتے ہیں۔ اور میرا تو یہ ذاتی تجربہ بھی ہےکہ میں جب سے جنابِ حافظ صاحب کی قربت میں آیا ہوں تو میرا عقیدہ توحید مزید پختہ ہوا ہے اور مُحبَّت رسول ﷺ میں اضافہ ہوا ہے۔ جنابِ حافظ صاحب سے رجوع کرنے اور رہنمائی پانے کی وجہ سے اللہ پاک میری ہر مشکل آسان فرمادیتے ہیں۔ اللہ کریم اور اِس کےپیارے رسولﷺ ہم سب سے راضی ہوں اور جنابِ حافظ صاحب کا سایہ ہمیشہ صحت وتندرستی کے ساتھ ہم سب پر قائم رہے۔ آمین یا ربُّ الْعَالمین۔ میری جب بھی حافظ صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے ہمیشہ حافظ صاحب کو عجز و انکساری کا پیکر دیکھا۔ ان کی آنکھوں سے مخلوقِ خدا کی مُحَبَّت اور الفت کے ساتھ ساتھ اللہ کی مُحَبَّت اور رسول خدا کے عشق کا پیمانہ چھلکتے دیکھا ہے۔ مجھ نا چیز نے آپ سے ہمیشہ عقیدہءِ توحید اور مُحَبَّت رسولﷺ کے درس کے ساتھ ساتھ روحانیت کا سحر پایا ہے۔اَلْحَمْدُلِلہ میں اپنے پیارے پروردگار کا بہت بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے اور برگزیدہ بندے کی قربت عطا فرمائی۔ مجھے کئی بار جنابِ حافظ سلمان صاحب سے لاہور میں ملاقات کا شرف نصیب ہوا اور آپ کی کچھ تحریریں پڑھنے کا بھی موقع ملا۔ ماشاء اللہ جب بھی آپ کی کوئی تحریرپڑھتا ہوں تو آپ کے الفاظ دل میں اترتے چلے جاتے ہیں اور روحانیت کے اثر سے دل و دماغ میں تازگی آجاتی ہے اور یہی ایک باعمل سچے اور کھرے انسان کی پہچان ہےاسکی بات میں تاثیر ہوتی ہے۔آپ نے اللہ کی حمد لکھی اس کا ایک شعر ہے۔

حمد و ثنا جاری و ساری ہے خالقِ کائنات کی

چلتی رہے گی حمد قیامت کے بعد بھی خالقِ کائنات کی

میں نے حافظ صاحب کو ہمیشہ اللہ ربُّ الْعِزَّت کی حمد اور اس کی شکر گزاری کرتے دیکھا ہے اسی طرح حال ہی میں جنابِ حافظ صاحب نے ایک بہت ہی خوبصورت کلام ’’دعائے صد ا بارگاہ الہٰی میں ‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا ہے جو ملک کے نامور نیوز پیپرز میں بھی چھپ چکا ہے۔ اَلْحَمْدُلِلہ اس کلام کو غور سے پڑھ لیں تو اس میں کامیاب زندگی گزارنے کا مکمل فلسفہ موجود ہے۔ رَبِّ ذُوالجَلَال کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اگر ہم اپنے آپ کو اس کے آگے سرِ تسلیم خَم کرلیں تو ہماری یہ دنیا بھی کامیاب ہے اور آخرت بھی۔ زندگی میں نشیب و فراز تو ہر کسی کے آتے رہتے ہیں اور اکثر بندہ پریشانی کی حالت میں ناامیدی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ مگر مجھے جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوئی تو میں نے حافظ صاحب سے رابطہ کیا اور انہوں نے مجھے قرآنِ پاک سے پڑھنے کے لیے آیات لکھ کر دیں اور میں نے پڑھنا شروع کر دیا۔ اَلْحَمْدُلِلہ ۔ اللہ پاک کے کرم سے ہر مشکل آسان ہوگئی ۔ خواہشات کا ہونا ایک انسانی وصف ہے اور ہر انسان اپنی خواہشات کی تکمیل میں کوشاں رہتا ہے۔ جو چیز انسان کے پاس موجود نہ ہو وہ اللہ سے مانگتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت سے دو بیٹیوں سے نوازا ہوا تھا اور یہ ایک فطرتِ انسانی ہے کہ جو نہ ہو وہ اسکی خواہش بن جاتی ہے اور خاص طور پر والدین کے لیے اولادِ نرینہ کی خواہش ایک فطری عمل ہے۔ میں نے ایک ملاقات میں جنابِ حافظ صاحب سےاولادِ نرینہ کی دعا کےلئے عرض کی تو آپ نے بڑے پُر اثر انداز سے مجھے سمجھایا کہ بیٹے اللہ تعالیٰ کی ذات ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ واحد لاشریک ہے۔ اس کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہے لہذا آپ اللہ سے رجوع رکھو اور مجھے آپ نے پڑھنے کے لئے ایک قرآنی آیت لکھ کر دی۔ Holy Quran 21:89 رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ ؕاور فرمایا کہ یہ دعا حضرت زکریا علیہ السلام نے مانگی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بزرگی میں بیٹا عطا فرمایا تھا۔ آپ یقین کریں کہ میں نے بڑے اعتقاد کے ساتھ اس آیت کو پڑھنا شروع کر دیا اور ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا رہا۔ حافظ صاحب کے بتائے ہوئے اللہ کریم کے کلام کی برکتوں سے پروردِگار نے مجھے اولاد ِنرینہ عطا فرمائی اور میں نے جنابِ حافظ صاحب سے نام کے لیے درخواست کی تو آپنے برجستہ فرمایا بیٹے اپنے والد اور والدہ سے عرض کرو انشاءاللہ انہیں خواہش بھی ہوگی اور یہ انکا حق ہے اور تمہارے لیے باعثِ سعادت بھی تو میں نے عرض کیا کہ دراصل میرے والدین اور تمام اہلِ خانہ کی یہی خواہش بھی ہےتو آپ نے میرے اصرار پر اس کا نام محمد علی حسن رکھ دیا اور میں نے آپ سے گزارش کی کہ بچے کو گڑتی آپ کی ڈلوانی ہے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے بزرگوں کی گڑتی ڈلواؤ مگر میرے اصرار کرنے پر آپ نے مہربانی کرتے ہوئے میری یہ خواہش بھی پوری فرمادی ۔ آجکل چونکہ ہر انسان مختلف مسئلے مسائل میں گھرا ہوا ہے اور اکثر لوگ ان نام نہاد عاملین کی طرف راغب ہو جاتے ہیں جو روحانی علاج گارنٹی سے کرنے کے دعوے کرکے سادہ لوح لوگوں کی جیبیں خالی کرتے رہتے ہیں مگر حافظ صاحب تو ایسے اللہ کے ولی ہیں کہ وہ اول تو اپنی عبادت و ریاضت میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ہر کسی کو دستیاب ہی نہیں ہوتے اور پھر وہ اپنے آپ کو زیادہ ظاہر بھی نہیں کرتے۔ حافظ صاحب تو لوگوں سے کچھ لینے کی بجائے اپنے دستِ مبارک سے اللہ کی مخلوق کی مالی اعانت فرماتے رہتے ہیں اور ان کا فلسفہ یہ ہے ’’کہ لینے والے کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھے خلقِ خدا کی مدد کرنے کا موقع دیا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوتی ہے میں تو صرف ذریعہ بنتا ہوں‘‘میں کہتا ہوں کہ آج کے اس دور میں اس طرح کے لوگ شاید ہی کہیں موجود ہوں۔ میری اس گفتگو کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی دسترس ایسے اللہ والے شخص تک نہ بھی ہو تو وہ ان باتوں پر عمل کرکے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اَلْحَمْدُلِلہ اب تو جناب حافظ صاحب معرفت کے مزید بلند مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ اب تو اللہ نے ان کو مزید نواز کر کشف القلوب بھی عطا فرمادیا ہے۔ اور اکثر جو بات ہمارے دل میں ہوتی ہے وہی جنابِ حافظ صاحب ہمیں بتا دیتے ہیں۔ یہ سب عطائے ربیّ ہے جو اللہ ربُّ الْعِزَّت کروڑوں میں کسی ایک خوش نصیب کو عطا فرماتا ہے۔ چونکہ جب انسان اللہ تعالیٰ اور اس کےرسول ﷺکی تعلیمات اور سیرتُ النبَّی پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور اسکی اپنی ذات اسکا مطمع نظر نہیں ہوتی صرف اللہ اور اللہ کے رسولﷺ اور اسکی مخلوق کی خدمت اسکا مقصدِ حیات ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنا خاص کرم فرما دیتا ہے۔ حافظ صاحب ہمیشہ ہر نشست میں اللہ اور اللہ کے رسول نبیِ کریم ﷺ پر اور آپکی آل اور صحابہ ءِ اِ کرام پر بہت گفتگو فرماتے ہیں اورہمیں دَرُودِ پاک کی فضیلت اور دَرُودِ پاک کے ذکر کی بہت ترغیب دیتے ہیں اور آپکی اپنی روز مرہ کی زندگی کا بیشتر حصہ بھی دَرُودِ پاک اور ذکر اذکار میں گزرتا ہے ۔ یہاں قرآنِ پاک کی یہ آیت قابل ذکر ہے جیسا کہ سورۃ الاحزاب آیت نمبر56 میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے حضور پر دَرُودبھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی حضور پر دَرُود و سلام بھیجو ماشاءاللہ حافظ صاحب جس انداز سے دَرُودِ پاک پڑھنے کی فضیلت اور کرامات کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں۔ شاید ہی کسی اور تحریر میں ایسا اثر موجود ہو۔ دراصل حافظ صاحب کی تحریر کوئی کتابی تحریر نہیں ہوتی بلکہ یہ تو روحانیت اور معرفت سے لبریز ایک دل کی صدا ہوتی ہے جسے پڑھ کر دل پر ایسی روحانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ پڑھنے والے کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ جنابِ حافظ صاحب کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے بلکہ ان پر عمل کرکے تو زندگی گزارنے کا ڈھنگ آجاتا ہے۔ آپ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ: کیا شانِ رحیمی ہے شانِ کریمی ہے جتنی بار بھی خطا ہو جائے لغزش بھول چوک ہو جائے، ندامت سے سر جھکا کر خطاءوں پر معافی کے طلب گار بن کر اس کے در پر جائیں کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ ضرور معاف فرما دیتا ہے اور کبھی یہ نہیں کہتا کہ کتنی مرتبہ معافی مانگ چکا ہے اور پھر بار بار آجاتا ہے۔ اور لطف تو یہ ہے کہ مانگنے والے سے خوش اورنہ مانگنے والے سے ناراض ہوتا ہے۔ چونکہ انسان جسم اور روح کا خوبصورت پیکر ہے اللہ نے جب خاک سے انسان بنایا تو اس کے اندر روح پھونک دی۔ کوئی بھی انسان ہو اس کے اندر روح اپنے عمل میں مصروف رہتی ہے۔ روح حسین منظر دیکھ کر خوش ہوتی ہے، اچھی خوشبو سے مہک جاتی ہے، اور ایک لطیف تحریر پڑھ کر اور بھی خوش ہو جاتی ہے لیکن جنابِ حافظ صاحب کے پاس تو پُرتاثیر الفاظ کا خزانہ ہے جن کو پڑھ کر روح کو بھی سکون ملتا ہے۔ آپ کی ایک تحریر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور ’’اَلْحَمْدُلِلہ‘‘ کے موضوع پر پڑھنے کا شرف نصیب ہوا۔ ماشاء اللہ اس تحریر میں جس انداز سے آپ نے اللہ کی شکر گزاری کی ہے ۔ سُبحَانَ اللہ اس کو پڑھ کر اپنی خوش قسمتی پر نازآتا ہے کہ مہربان اللہ نے ہم پر کتنا کرم فرمایا کہ ایک تو ہمیں اشرف المخلوقات میں تخلیق کیا اور پھر اس سے بڑھ کر مسلمان گھرانے میں پیدا کیا اور پھر حضور نبی کریمؐ کی اُمَّت میں پیدا کیا۔ یہ اللہ کی عنایت اور کرم نوازی ہے اب اللہ پاک اپنی مخلوق سے اور اپنے بندوں سےیہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس کی بڑائی بیان کرے اور اس کی شکر گزاری بجا لائے اس سے مالک دو جہاں خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ نےبِسْمِ اللّٰهِ ِکے موضوع پر بھی قرآنِ پاک کی روشنی میں سیر حاصل گفتگو بیان فرمائی۔ سبحان اللہ آپ نے جس انداز میں بِسْمِ اللّٰهِ کی برکتیں اور رفعتیں بیان فرمائی ہیں شاید اتنی پُر اثر تحریر اس سے پہلے کسی نے نہیں لکھی ہوگی کیونکہ جنابِ حافظ سلمان صاحب کی تحریریں کوئی کتابی تحریر یں نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک اللہ والے کے قلم سے لکھے جانے والے الفاظ ،روحانیت کے نور سے بھر پور روشن اور گلہائے عقیدت کے اعلیٰ معیار کے لفظ دلوں میں رس گھولتے ہوئے اترتے چلے جاتے ہیں اور پڑھنے والا ان کے اثر کو محسوس کرتا ہے۔ اس موقع پر مجھے حافظ مظہر الدین مظہر صاحب کا یہ شعر یاد آرہا ہے جو آپ کی تحریروں کی ترجمانی کرتا ہے۔

میری آہوں کو مدینے سے ملی ہے تاثیر

میری فریاد میں طیبہ سے اثر آیا ہے

زہد و قناعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے، تقویٰ اور پرہیز گاری کے پھولوں کو اپنے دامن پر سجانے والے حافظ سلمان مرزا صاحب جب بھی ہمارے سامنے جلوہ افروز ہوئے ہیں۔ ہم نے آپ کو ہمیشہ اللہ کی مُحَبَّت اور حضور نبیِ کریمﷺ کے عشق میں سر شار دیکھا ہے ۔ آپ کا زیادہ تر وقت اللہ کی تسبیح کرنے اور پھر نعت سننے میں گزرتا ہے ۔آپ نعت خوانی میں بھی ملک کے بڑے بڑے نام جنہوں نے دل سے نعت خوانی کی ان کو پسند فرماتے ہیں جن میں ایک بہت بڑا نام سید منظور الکونین شاہ صاحب ؒاللہ آپ کی قبرِ انور پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین محترم شاہ صاحب نعت خوانی کی پڑھت کی ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ حافظ صاحب انکو بیحد پسند بھی کرتے تھے اور انسے بہت عقیدت بھی رکھتے تھے اور شاہ صاحب بھی انسے بہت مُحَبَّت فرماتے تھے اور پیار سے سلمان بھائی کہتے تھے انکی فنّی زندگی پر جنابِ ارسلان احمد ارسل صاحب نے ایک بہت ہی زخیم کتاب ’’حُضور و سُرور‘‘کے عنوان سے مرتب فرمائی جس میں ایسی عظیم ہستی کے فن پر حافظ صاحب نے ’’نعت خوانوں میں ایک واحد شفاف آئینہ ‘‘کے عنوان سے طبع آزمائی کا شرف حاصل کیا۔آپ نے اپنی پوری زندگی نعت کے لیے وقف کر دی اور اپنی نعت خوانی کے طرز اور اسلوب کی ایسی شمع روشن فرمائی جو جب تک یہ کائنات موجود ہے روشن رہے گی آپ نے ماشاءاللہ اتنے بے حساب نوجوانوں کو اپنا یہ فن منتقل کیا اور آپکے ماشاءاللہ اتنے بے حساب شاگرد موجود ہیں جن میں ہر ایک کی اپنی انفرادیت موجود ہے لیکن ہر پھول کی خوشبو بتاتی ہے کہ یہ پھول گلستان سید منظور الکونین شاہ صاحب ؒ کا ہے انکے شاگردوں کی فہرست میں ایک سب سے اعلیٰ اور کمال مقام پانے والے سید زبیب مسعود شاہ صاحب ہیں۔ جن کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ انہوں نے خود شاہ صاحب کی صحبت میں فن کو حاصل کرنے کیلئے سب سے زیادہ وقت اپنے استاد ِگرامی کیساتھ گزارا اس کا عملی ثبوت استادِ گرامی کی پڑھت کا عکس جنابِ سید زبیب مسعود شاہ صاحب میں اتنی مہارت کے ساتھ رچا بسا ہے کہ بغیر بتائے کہا جا سکتا ہےکہ آپ منظور الکونین شاہ صاحب ؒکے دبستان کے چمکتے دمکتے پھول ہیں آپکو اللہ نے بین الاقوامی نعت کی دنیا میں بہت مقام سے نوازا ہے آپ جو حضور نبیِ کریم ﷺکی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے عظیم اساتذہ کی روایت کو قائم ودائم رکھے ہوئے ہیں یہ آپکی نعت خوانی کا خاصہ ہے ۔حافظ صاحب صاحبزادہ سید زبیب مسعود شاہ صاحب کو بھی بہت پسند فرماتے ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ کا نام نعت خوانی میں بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے اور جنابِ حافظ سلمان صاحب، شاہ صاحب کو اسلئے بھی بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کا انداز اور الفاظ کا چناؤ بہت اعلیٰ ہوتا ہے ۔ شاہ صاحب ماشاء اللہ اس وقت نعت گوئی میں ایک منفرد پہچان کے حامل اور نعت سے پیار رکھنے والے لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہیں اور اَلْحَمْدُلِلہ شاہ صاحب بھی جنابِ حافظ سلمان صاحب کے بہت بڑے معتقد ہیں میں نے خود انکی ایک ویڈیو میں کسی مقام پر شاہ صاحب کی زبانی جنابِ حافظ صاحب کے بارے میں انسے تعلق کے متعلق بہت خوبصورت الفاظ میں مُحَبَّت اور عقیدت کا اظہارِ خیال کرتے سنا ہے اور حافظ صاحب نے بھی سید زبیب مسعود شاہ صاحب کی نعت خوانی پر بہت ہی خوبصورت اور ایک جامع تحریر لکھی ہے ’’دور حاضر میں اصل نعت خوانی کی روایت کی درسگاہ‘‘ کے عنوان سے جو ملک میں معروف اخبارات اور جرائد میں چھپی اور آج بھی اکثر حافظ صاحب ان کے لیے دست بہ دعا رہتے ہیں کیونکہ نعت اور قرآن تو حافظ صاحب کی زندگی کیلیے لازم و ملزوم ہیں اسکے بغیر انکے لیے زندگی کا تصور ہی نہیں ہےبڑے شاہ صاحب اور زبیب شاہ صاحب کی نعتیں آج بھی وہ روز سنتے ہیں اور انکے لیے دعا گو رہتے ہیں کہ اللہ انہیں نعت خوانی کی دنیا کو آباد رکھنے اس کو مزید پھیلانے اورنئی نسل کو اپنا فن منتقل کرنے میں آسانیاں اور کامیابیاں عطا فرمائے اور ان کو ساتھ صحت کے عمرِ دراز عطافرمائے۔ آمین

عجب مقام سجھاتی ہے نعت پاک رسول

کہاں کہاں لئےجاتی ہے نعت پاک رسول

وضو جو کرتے ہیں اشکوں سے میرے لفظ و خیال

تو پھر وجود میں آتی ہے نعت پاک رسولؐ

جنابِ حافظ صاحب معرفتِ الہٰی اور عشق رسو لﷺ کے اس مقام پر ہیں کہ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ جہاں ہستی محبوبِ ربَّانی ہو۔کون ان کے شایانِ شان ایک لفظ بھی تحریر کرنے کی جسارت کرے اور جن کی تعریف خود خدا نے کی قرآن کے سپاروں میں کی ۔ ان کی شان انسان کے بس کی بات کہاں

لفظ بے بس زبان ہے معذور، ہم سے ذکرِ رسول کیا ہوگا

ہو کنارہ نہ جس سمندر کا وہ سمندر عبور کیا ہوگا

یہ اولیاء اللہ ہی ہوتے ہیں جو وارثانِ علومِ مصطفٰیﷺ ہوتے ہیں ان کو کسی درس گاہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی بلکہ جیسے جیسے یہ معرفتِ ربّیِ میں منزلیں پاتے جاتے ہیں ان کے ادراک سے پردے ہٹتے چلے جاتے ہیں ۔ جنابِ حافظ صاحب کے پاس علم کا خزانہ ہونے کے باوجود ان کی عجز و انکساری کا عالم یہ ہے کہ وہ ایک جگہ فرماتے ہیں۔

یہ بھی تونے علم پہ کیا لکھ دیا حافظ

علم کیا، علم ہے بندے تو علم کو کیاجانے

علم تو وہ علم ہے جس علم سےبندہ خدا کو پہچانے

اللہ تجھے اس علم کی روشنی سے اور روشناس کرے

اللہ پاک نے حافظ صاحب کو بہت ساری نعمتوں اور اوصاف سے نوازا ہے ان میں ایک وصف سخاوت ہے ۔ میں نے آپ کو جتنی سخاوت اور فیاضی کرتے دیکھا ہے اتنا ہی آپ لوگوں کو عزت و احترام بھی دیتے ہیں۔ کبھی کسی کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہونے دیتے۔ آپ تو ہمیشہ لینے والے کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے آپ کو یہ نیکی کرنے کا موقع دیا ہے۔ سُبَحَان اللہ لکھنے کے لیے تو بہت کچھ موجود ہے مگر اس چھوٹی سی تحریر میں ہم جنابِ حافظ صاحب کے بارےمیں اپنے دل کی باتیں بیان کرنے سےقاصر ہیں ۔ جنابِ حافظ صاحب کی شخصیت اتنی پُر اثر ہے کہ جو بھی ان سے ملتا ہے انہی کا ہو جاتا ہے اور ان سے بار بار ملنے کی خواہش کرتا ہے۔ یہ سب آپ کی آقائے نامدار حضرت محمدﷺ سے مُحَبَّت کا نتیجہ ہے جیسے علامہ محمد اقبال ؒنے فرمایا۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

آپ کے اندر ایک تصَوُّف کا یہ بھی وصف ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی فطرت اور نیچر سے بہت مُحَبَّت کرتے ہیں مجھے جنابِ حافظ صاحب کے گھر کے باہر موجود باغیچہ کی تصاویر دیکھنے کا شرف نصیب ہوا ۔ سُبَحَان اللہ اتنا خوبصور ت منظر تو جنَّت کے باغات کا ہی ہوسکتا ہے۔ پتھروں کے اندر سے اگتےہوئے پودے اور ان پر لگے ہوئے پھول ۔سُبَحَان اللہ،سُبَحَان اللہ اللہ ربُّ العزت کی حمد بیان کرتے ہیں۔ باغیچے کے اندر پرندوں کے لیے دانہ پانی کا انتظام بھی کتنی خو بصورتی سے کیا ہوا ہے اور پھر وہاں پرندوں کا موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جنابِ حافظ صاحب پر کتنی مہربان اور راضی ہے۔ جنابِ حافظ صاحب کے ہاتھ کی لکھی ہوئی خَطَّاطی سُبْحَانَ اللہ معرفتِ الہٰی اور روحانیت کے اعلیٰ مقام کو ظاہر کرتی ہے ۔ یہ سب اللہ کریم کی خصوصی عطا ہے کہ آپ اللہ اور اس کے محبوب رسول ﷺکے نام اتنی خوبصورتی سے لکھ لیتے ہیں کہ یقین مانیں جتنی بار دیکھتے ہیں منہ سے سُبَحَان اللہ نکلتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ ملتان تشریف لا رہے تھے میرے ایک دوست قمر عباس جو ریلوے پولیس میں ملازم ہیں آپ سے ملنے کے بہت خواہشمند تھے انہوں نے مجھے کہا کہ وہ جنابِ حافظ صاحب کی زیارت کرنا چاہتے ہیں میں نے ان سے کہا کہ اگر حافظ صاحب نے اجازت فرمائی تو میں آپ کو بلا لوں گا ۔ جب میں نے حافظ صاحب سے عرض کیا تو آپ نے اجازت فرمادی اور میں نے ان کو کال کی تو فون نہیں مل رہا تھا ۔ میں نے چار پانچ مرتبہ کوشش کی مگر فون نہیں ملا تو بالآخر میں نے حافظ صاحب کو بتا دیا کہ سر اس کا نمبر نہیں مل رہا لہذا وہ پھر کبھی آپ سے مل لے گا ۔ اس پر آپ نے کہا کہ بیٹے اگر وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے اور میں بھی ملنے پر راضی ہوں تو اللہ نے چاہا تو وہ ضرور آئے گا۔ آپ نے فرمایا اببِسْمِ اللّٰهِ پڑھ کر فون ملاؤ مل جائیگا۔ میں نے دوبارہ پھر کوشش کی تو فوراً کال مل گئی اور پھر میں حیران اس وقت ہوا جب قمر عباس وہاں پہنچا ابھی دور تھا تو کئی لوگ موٹر سائیکل پر آجا رہے تھے ۔ جنابِ حافظ صاحب نے دور سے دیکھ کر مجھے کہا کہ وہ قمر عباس آگئے ہیں میں نے حیرت سے کہا کہ جی سر ۔ مگر آپ کو کیسے پہچان ہوئی۔ یہ سب آپ کے کشف کی کرامات ہیں جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا ہوا ہے۔ قمر عباس نے آتے ہی آپ کے گھٹنوں کو چھو کر سلام کیا اور کچھ دیر دین کی باتیں ہوتی رہیں اور آپ نے انکے کچھ مسائل کی مناسبت سے پڑھنے کے لیے بتایا پھر حافظ صاحب وہاں سے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ بعد میں، میں نے قمر عباس سے پوچھا کہ آپ نے حافظ صاحب کو ملکر کیسا محسوس کیا تو جنابِ حافظ صاحب سےمتعلق ان کے احساسات یہ تھے۔ ’’میں نے اپنی زندگی میں اتنے نورانی چہرے والےبزرگ کو پہلی مرتبہ دیکھا ہے اور آپ کی گفتگو اتنی پُرکشش تھی کہ باتیں دل میں اترتی گئیں اور باوجود اجازت کے وہاں سے واپس جانے کے لیے جی نہیں چاہتا تھا ان لمحات میں آپ کی شخصیت کا سحر طاری تھا اور دل مسلسل آپ کے چہرے کی زیارت کرنے میں مشغول رہایہ سب اللہ والے کی نشانیاں ہیں۔ ‘‘ جنابِ حافظ سلمان مرزا صاحب پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے کیونکہ آپ کے وصف زیادہ ہیں اور الفاظ کم ۔ آپ ایک شفیق باپ کی طرح ہم سب سے پیش آتے ہیں اور اللہ کی مخلوق کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ اپنی اولاد کی طرح سمجھتے ہیں اور ہماری دینی ودنیاوی اور اخلاقی تربیت و رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ آپ چونکہ قاریِ قرآن بھی ہیں اور مجھے آپ کی آواز میں تلاوتِ کلام پاک سننے کا بھی شرف نصیب ہوا ہے۔ اتنی میٹھی اور پر کشش آواز جو کانوں میں رس گھولتے ہوئے دل میں اترتی جاتی ہے۔ آپکو اللہ کی کرم نوازی سے یہ بھی شرف حاصل ہے کہ مدرسے سکول کالج کی محافل اور مقابلہ حسن قراءت میں آپ نے بیشمار انعامات اور کالج کیلئے مسلسل ٹرافیز جیتیں چونکہ آپ صاحبِ بصیرت ہیں اور قرآن کی تلاوت کے ساتھ اس کا مطلب بھی آپ کے ذہن میں ہوتا ہے اس لیے اس کی تاثیر ہی کچھ الگ ہے۔ ہم سب کی دلی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جنابِ حافظ صاحب کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ان کو اور ان کی پوری فیملی کو ہمیشہ صحت و تندرستی کے ساتھ درازی ءِعمر عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہم سب پر قائم و دائم رکھے آمین۔ یا ربُّ الْعَالمین۔ آخر میں، میں جنابِ عبداللہ لیاقت صاحب کا شکر گزار ہوں کہ وہ اپنی گوں ناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر یہ کتاب مرتَّب کر رہے ہیں اور ہماری دلی خواہش پوری ہو رہی ہے کہ ہمارے پیرِ کامل پر یہ کتاب مرتَّب کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو زندگی کے تمام نیک مقاصد میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے اور اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔