راہِ حق کے مسافر

ارسلان احمد ارسل

اک دن وہ مل گئے تھے سرِ راہ گزر کہیں

پھر دل نے بیٹھنے نہ دیا عمر بھر کہیں

معزز قارئین آج میں ایک ’’ راہِ حق کے مسافر‘‘ اور’’مرد ِ درویش‘‘ کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں اس لیے با وضو ہو کر تہجد کے وقت لکھنے بیٹھا ہوں یقین کیجیے بہت گناہ گار ہوں زندگی میں تہجد کی نماز کبھی ادا نہیں کی لیکن آج اس وقت تک مجھے نیند ہی نہیں آئی کہ مجھے اس شخصیت پر اسی وقت لکھنا ہے بس قبول ہو۔ احبابِ گرامی! جب کوئی معاشرہ بہت زوال کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر طرف تاریکی چھا جاتی ہے تو ایسے میں اللہ اپنے کسی خاص بندے کو اس معاشرے میں بھیج دیتا ہے جس کی وجہ سے اس معاشرے میں اخلاق و اقدار کی شمع روشن ہو جاتی ہے۔ امید کی کرن جاگ اٹھتی ہے۔میں جن کے بارے میں آپ سے مخاطب ہوں وہ بھی ایک ایسی ہی روحانی شخصیت ہی ںمیری مراد جنابِ حافظ سلمان مرزا صاحب سے ہے۔میری حافظ صاحب سے پہلی ملاقات میرے دیرینہ دوست اور انتہائی خوبصورت نعت خواں سید زبیب مسعود کے توسُّط سے شاید فورٹریس سٹیڈیم میں ہوئی اور بس پھر۔۔۔

دیکھا جب سلمان کا نورانی چہرہ پہلی بار

ہو گیا تھا اُس گھڑی ارسلؔ فدا سلمان پر

یعنی جب میں نے پہلی بار حافظ صاحب کو دیکھا تو میں ان کا گرویدہ ہو گیاچہرہ پُر نور، پیشانی روشن، ریش مبارک، چہرے پر نور کا ہالہ، انتہائی شگفتگی اور متانت یکدم دل نے مان ہی لیا کہ کسی روحانی و باطنی شخصیت سے شناسائی ہوئی ہے۔لیکن بات وہیں تک نہ رہی۔آہستہ آہستہ جب ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوا تو میں حافظ صاحب کے باطنی تصرفات سے مستفید ہوتا چلا گیااس دور میں حافظ صاحب اور سید زبیب مسعود دونو‌ں اکھٹے لاہور آتے تھے تو حافظ صاحب مجھے بھی بلوا لیتے اور میں حاضر ہو جاتاگھنٹوں کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھے رہتےاور نعت اور اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئےوقت کا پتہ ہی نہ چلتا میں نے حافظ صاحب کو زبیب مسعود پر بہت شفقت فرماتے دیکھا ہے۔ دور دراز محافل میں اپنی گاڑی پر لے جاتے دیکھا ہے لیکن بہت شوق اور صرف اور صرف نبیِ کریم ﷺ کی نعت سے مُحَبَّت کے سبب بہت سی داستانیں ہیں کچھ کہی اور کچھ ان کہی۔ میں نے جب اللہ کے فضل و کرم اور نبی ِکریم ﷺ کی نگاہ ِرحمت سے’’ حُضور وسُرور‘‘ مرتب کی تو حافظ صاحب کی مجھ پر شفقت مزید بڑھ گئی اور اس میں بھی زیادہ اس لیے کہ مجھے عالمِ اسلام کے عظیم ثناخوان رسولﷺجنابِ صاحبزادہ سید منظورالکونین شاہ صاحب ؒکے فن اور شخصیت پر کتاب مرتب کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور حافظ صاحب شاہ صاحبؒ سے قلبی اور دیرینہ مُحَبَّت رکھتے تھے اس لیے بھی انہوں نے میری زیادہ حوصلہ افزائی فرمائی بات یہیں تک نہ رکی اس کے دو سال بعد جب کلیاتِ مظہر کو ناچیز نے ترتیب دیا تو میں حافظ صاحب اور زبیب حافظ مظہر الدین مظہر ؒکے مزار شریف پر حاضری دینے کے لیے پہنچے تو حافظ صاحب نے کلیات کی اشاعت کے حوالے سے مجھ سے بہت حُسنِ سلوک کیا جو مجھے مرتے دم تک یاد رہے گا۔ وہ دن اور آج کا دن حافظ صاحب کی اتنی شفقتیں ہیں کہ ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ہمیشہ میری رہنمائی کی، مشکل میں کام آئے ڈھارس بندھائی باہر ہوٹل میں بلوایا تو کھانا خود کھلایا گھر تشریف لائے تو ساتھ لے کر آئے ان سے کہا کہ آپ نہ لائیں ہمیں خدمت کا موقع دیں تو کہنے لگے اللہ مہمان نوازی کو پسند فرماتا ہےاس سے رزق میں اضافہ ہوتا ہےاللہ ُاَکَبَر۔ حافظ صاحب روحانیت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔ اللہ اور اس کے حبیب ﷺکی مُحَبَّت ان کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ہر وقت ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے ہیں قرآنِ مجید کی تلاوت انتہائی خوبصورت لحن میں کرتے ہیں۔بہت سے وضائف کا کثرت سے ورد کرتے ہیں۔ دَرُودِپاک بہت نم آنکھوں سے پڑھتے ہیں‌ نعت شریف سنتے وقت ان پر رِقَّت طاری ہو جاتی ہے، میں نے ان کو لوگوں کی مشکلوں کو حل کرتے دیکھا ہے، ان کی ہر طرح سے مدد کرتے دیکھا ہے اپنے وابستگان کی قرآنی آیات سے رہنمائی کرتے دیکھا ہے حافظ صاحب کی شخصیت اس محاورے کا عملی ثبوت ہے " کُل کا بھلا، کُل کی خیر" زیرِ مطالعہ کتاب حافظ صاحب کی نثری تحریروں اور ان کی شاعری کا مجموعہ ہےشاعری میں حافظ صاحب " حافظ" تخلص کرتے ہیں۔ جیسا کہ ان تحریروں کے عنوانات سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کسی اللہ والے کی روحانی تحریریں ہیں جن میں اللہ اور اس کے محبوبﷺ اور قرآنِ کریم سے مُحَبَّت جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ مخلوق ِخدا سے ہر طرح سے محبَّت اور حُسنِ سلوک کا پیغام ایک ایک سطر میں واضح ہے ان تحریروں کو پڑھ کر باطنی سکون ملتا ہے روحانی تسکین پہنچتی ہے۔ حافظ صاحب کی شاعری میں خلوص ہے،عِشقِ رسولﷺ اپنی انتہا کو پہنچا معلوم ہوتا ہے اشعار بہت کیف آوریں ہیں نظموں میں پوری عالم انسانیت کے لیے دعا ہے، خُود سپردگی کی کیفیت ہے۔حافظ صاحب کی ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کی خطاطی بھی بہت دیدہ زیب اور دلکش ہے جس کو دیکھ کر دل کو آسودگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح اس کتاب میں حافظ صاحب کی نثری تحریریں، ان کی شاعری اور خَطّاطی کے اَعلیٰ نمونے ملتے ہیں جہاں تک حافظ صاحب کی شخصیت کے بارے میں ظاہری و باطنی اوصاف کا تعلُّق ہے وہ اس قدر ہیں کہ ایک تحریر میں پورے آ ہی نہیں سکتے۔صرف اتنا کہوں گا کہ اللہ کریم ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سر پر سلامت رَکھّے اور ان کو صحت و سلامتی کے ساتھ درازی ءِ عُمر عطا فرمائے اور یہ اسی طرح ہمیں دعاؤں سے نوازتے رہیں آمین۔ اس کتاب میں ان کے چاہنے والوں میں جنابِ محمد اسد شاہ، جنابِ عبدالستار،جنابِ محمد اشرف حسین بھٹی اور میرے خالہ زاد بھائی جنابِ عبداللہ لیاقت نے بھی ان سے اپنی تحریروں کے ذریعہ عقیدت کا اظہار کیا ہےان میں کہا ہے اور خوب کہا ہے۔ اللہ کریم ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ اتنے بڑے آدمی کے لیے اپنے حسین احساسات و جذبات کا اظہار کیا، اللہ کریم سب کو سلامت رکھے اور میری دعا ہے کہ یہ کتاب بارگاہِ رسالت ﷺمیں مقبول ہو۔ آمین ۔