علمی و عملی تربیت کی درسگاہ

عبدالستار

اِس کا ئنات میں اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات تخلیق کیا اور اللہ نےکچھ ایسے انسان تخلیق فرمائے جو اللہ کے خاص چنیدہ ہوتے ہیں جن کو اللہ نے چن لیا ہوتا ہے دنیا میں اپنی مخلوق کی خدمت دینی اور دنیاوی تربیت فلاح و بہبود اور معاشرے کی برائیوں کا مداوا کرنے کیلئے جو خود ہر لحاظ سے عملی نمونہ ہوتے ہیں اور ان کا اندازِ بیان اتنا پُر اثر الفاظ اتنے آسان اور زبان میں اتنی مٹھاس اور بات میں اتنی گہرائی ہوتی ہے اور ان کے چہرے کی نورانیت پُرکشش شخصیت اور مقناطیسی جاز بیت انکی طرف ایسے متوجہ اور مائل کر دیتی ہے کہ انسان ان کا گروید ہ ہو جا تا ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر یشانی ، دکھ، تکلیف، بیماری میں آپ جب اِن سے رجوع کریں تو اِن کی روحانیت کے فیض سے اِن کی کہی ہوئی بات عین آپکے مسئلے کی جڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس لئے ان کی بات ہر شخص کے دل پر اثر کرتی ہے اور ان کے دل سے نکلی ہوئی بات آپکے دل میں پہنچتی اور اثر کرتی ہے اور یہ کسوٹی ہے سچائی اور عمل کو پر رکھنے کی ۔ اور اس طرح یہ اللہ کے برگزیدہ بندے جنہیں کوئی بابا جی، کوئی اللہ والے، کوئی اللہ کے فقیر، درویش اور اللہ کا ولی کہتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو کچھ بھی کہلوانا نہیں پسند فرماتے کیوں کہ وہ اپنے آپ کو صرف اللہ کا بندہ ہی سمجھتے ہیں ۔ عام انسانوں کی طرح اپنی نفی اور عاجزی و انکساری ان کا اوڑھنا اور بچھونا ہوتا ہے ۔ یہ ان لوگوں کو جو اپنی کوشش اور محنت سے کامیاب ہونے کی لگن اور خواہش کرتے ہوئے ایمانداری امانت اور دیانت کو بھی نہیں چھوڑتے وہ ان کی زندگی میں آگے بڑھنے میں ان کو جو بھی مالی اعانت درکار ہوتی ہے ، اس میں ان کا بازو بنتے ہیں اور ان کی دین و دنیا کی روسے رہنمائی کرتے ہوئے اِس بات کو خاص طور پر ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں کہ کسی کی عزت ِنفس مجروح نہ ہو ۔ اس طرح وہ اللہ کی لگائی ہوئی ڈیوٹی پوری کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا کام مخلوق کو دینا ہے۔ ان سے کچھ لینا نہیں ۔ یہ صرف با نٹتے ہیں دینی ، دنیاوی ، روحانی علم و تربیت سے اور اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے اس کی مخلوق پر خرچ کرتے ہیں اور اللہ کوراضی کرتے ہیں ۔ اور مخلوق کو آسانیاں بانٹ کر دلی اور روحانی تسکین پاتے ہیں اور آئندہ کی زندگی جو ہمیشہ کے لئے ہے اس کے لئے اپنے اعمال بہترین بنانے اور نیکیوں کا پلڑا بھاری کرنے اور اللہ کو راضی کرنے کا ذریعہ بنا رہے ہوتے ہیں ۔ ایسی ہستیاں کسی بڑی یو نیورسٹی سے فارغ اتحصیل نہیں ہوتیں ، نہ ان کے پاس کوئی ڈگری کسی دنیا کی بڑی نامی گرامی آکسفورڈیا ہارورڈیونیورسٹی یا عُلُوم الدِین کی شریعہ یا مفتی کی کسی جامعہ اظہر مصر یا جامعہ اشرفیہ کی ہوتی ہے ہاں البتہ یہ یقیناً روحانیت کے بڑے درجے پر فائض ہوتے ہیں یہ چلتی پھرتی روحانی درسگاہ ہوتی ہیں ۔ ان کی ڈگری دنیا کی سب سے بڑی افضل درسگاہ کی جاری کردہ ہے جو حضور نبیِ کریم ﷺ کے اُمَّتی ہونےکے ناطے ان کی سیرت ہمارے لئے قرآن کی صورت میں موجود ہے جو اس کو پڑھ کر سمجھ کر اس پرعمل کر کے سیرتُ النبَّیﷺ کے مطابق زندگی گزارے، اللہ اور اللہ کے رسولﷺ اس سے راضی ہو جاتے ہیں اور جتنی استقامت پیداہوتی جاتی ہے تو روحانیت کا سفر ریاضت سے شروع ہوتا جا تا ہے۔جتنی لگن و تڑپ ہوگی منزل اتنی قریب ہو جائے گی اور پھر حضورﷺ کی نسبت سے یقین آ گےاور مخلوق تک پھیلتا چلا جا تا ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اسکی ڈیوٹی لگا دیتا ہے۔یہاں اُسکی مناسبت سے حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا یہ شعر قابل ذکرہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

یہاں ایک عظیم ہستی قابلِ ذِکر ہیں جن کا نام حافظ سلمان مرزا ہے ان میں میں نے یہ تمام خصوصیات پائیں۔آج میں نا چیز ان کے بارے میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اظہار عقیدت ومُحَبَّت پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ مجھےا نہیں دیکھنے کا اتفاق کب اور کیسے ہوا؟ میں پاکستان کی ایک معروف ٹرانسپورٹ ڈائیوبس سروس کمپنی میں ملازمت کرتا تھا، میں سیکورٹی سٹاف میں تھا، ظاہر ہے ہماری پبلک ڈیلینگ ہے ، ڈیوٹی کے فرائض کی نسبت سے لوگوں کی نقل وحمل ہمارے فرائضِ منصبی کا حصہ ہے اس طرح ایک ایسی شخصیت جن کے چہرے پر ایسا نور اور ایسی پرکشش اور پُر کیف شخصیت جس میں ایسی مقناطیسی کشش اور جاذبیت جو ہرکسی کوا پنی جانب کھینچ لے میں کیسے ان سے نا آشنا رہ سکتا تھا ۔ ان کو دیکھتے ہی میں ان کا گرویدہ ہو گیا تھا۔ ڈائیو کے ٹرمینل منیجر ، ڈرائیور، آپریشن سٹاف اور اس وقت کے HR ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ GM بھی آپ سے روحانی بزرگ کی حیثیت سے عقیدت رکھتے تھے،اکثر سٹاف آپ سے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے آپ سے پڑھنے پڑھانے کے لئے پوچھتے اور روحانی فیض پار ہے تھے ۔ ٹرمینل منیجر خود آپ کی ٹکٹ بک کرواتے اور جب آپ ٹریول کے لئے آتے تو آپ کو بس تک چھوڑ نے آپ کے ساتھ آتے تھے ۔ کیونکہ سارا سٹاف آپ کو جانتا تھا آپ کے احترام میں سکینر سے آپ کو چیک نہیں کرتے تھے تو آپ فرماتےتھے کہ جیسے دوسرے مسافروں کو چیک کرتے ہیں مجھے بھی چیک کر یں تا کہ دوسرے مسافروں کو اس بات پراعتراض نہ ہو آپ کی اس بات سے سیکورٹی سٹاف بھی خوش ہوتاتھا ، میں نے حافظ صاحب کو روحانی بزرگ کے طور پر پایا، میرے مشاہدے میں آیا کہ اکثر جو بات ہم ان سے پوچھنا یا کہنا چاہتےتھے تو وہ اپنے تجر بے اور ِروحانیت کے علم کی وجہ سے ہمیں جواب دے دیتے تھےاور معلوم کر لیتے تھے۔ ایک دفعہ مجھے حافظ صاحب کے ساتھ لاہور سے ملتان سفر پر جانے کا اتفاق ہوا راستے میں بارش ہورہی تھی ۔ ڈرائیور عبدالرؤف گاڑی تیز چلا رہا تھا ، حافظ صاحب نے اسے کہا کہ سڑک گیلی ہے گاڑی سلپ ہو سکتی ہے لیکن پھر بھی وہ گاڑی تیز کر دیتاتھا تو حافظ صاحب نے کہا کہ کوئی بات نہیں اگرتمہیں اللہ نےکچھ د کھادیا تو پھر تمہیں سمجھ آ جائے گی ، ہمارے آگے ایک بس جارہی تھی جو کہ گیلی سڑک پر اچانک سلپ ہوکر سڑک سے نیچے کچے میں اتر گئی لیکن اسے اَلْحَمْدُلِلہ کوئی نقصان نہ پہنچا اور محفوظ رہی اور اَلْحَمْدُلِلہ ہم بھی محفوظ رہے ۔ اور اس وقت ایسا ہونے سے اس بات پر یقین پختہ ہوا کہ آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کواللہ نےکیسے پورا کروا دیا۔ اکثر اوقات حافظ صاحب ہماری تعلیم وتربیت کے لئے ہمیں کسی ریسٹورنٹ میں ساتھ لے جاتےتھے آپ بڑے سہل انداز میں اللہ اور اسکے رسولﷺ کی باتیں بتاتے ،دینی و دنیاوی تعلیم میں رہنمائی فرماتے ،اکثر ہم نے کھانے میں دیکھا کہ حافظ صاحب خود بہت ہی کم کھاتےتھے آپ کی باتوں میں اتنی مٹھاس ہوتی کہ ہمارے دل میں گھر کر لیتیں اور ہماری روح پر اثر کرتیں ۔یہ ہماری روحانی تربیت تھی اوریہ نشست ہماری روحانی درسگاہ ہوتی ۔ ہم ایک دفعہ حافظ صاحب کے ساتھ لاہوربندو خان ریسٹورنٹ گئے چونکہ ملتان سے مہمان آئے ہوئے تھے کھانے میں کافی وقت تھا ، حافظ صاحب دین و دنیا کے حوالے سے ہماری اصلاح فرمارہے تھے آپ کی ؕباتیں سن کرہوٹل منیجر اور ویٹر بھی ایک لائن میں کھڑے ہوکر سننے لگے جب بعد میں حافظ صاحب نے دیکھا تو کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ لوگ بھی کھڑے ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ اتنی خوبصورتی سے بیان کررہے ہیں کہ دل چا ہ رہا تھا کہ آپ سناتے جائیں اور ہم سنتے جائیں ۔ حافظ صاحب کسی شخص کو مشکل یا پریشانی میں دیکھتے ہیں تو بِلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب مسلک ذات یا برادری کو بالائے طاق رکھ کر بحیثیت انسان اور اللہ کی مخلوق سمجھ کر جان و مال، دوا ؤ دعا جس طرح سے اس کی مشکل کا مداواممکن ہوتا کرنے کی بھر پور کوشش کرتے اور عملاًضرور مددفرماتے ۔ کیوں کہ وہ ہمیشہ فرماتے ہیں کہ ہم سب اللہ کی مخلوق ہیں اور حضورنبی کریم ﷺتمام انسانوں کے لئےرَحْمَتُ الّلِعَا لَمیِن ہیں تو تمام انسان اللہ کی مخلوق ہیں، اللہ کو اپنی مخلوق سے بہت پیارہے، اور جب کوئی اس کی مخلوق کی مشکل میں کام آئے تو اللہ اسے پسند فرماتا ہے اور اس سے راضی ہوتاہے یہاں مجھے اس نسبت سے مشہورِ زمانہ شعر یاد آرہا ہے ۔

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

ایک ایسی ہی قابلِ احترام قابلِ عزت شخصیت حافظ سلمان صاحب کے بارے میں لکھنا،میں اس قابل تو نہیں بس ایک مُحَبَّت اور عقیدت کا اظہار ہے نا ہی میرے پاس ان کے شایان شان الفاظ موجودہیں حافظ صاحب سے میر اقریبی تعلق کچھ سال پہلے بنا جب میں ڈائیوو کیب میں سینئر آفیسر تھا میں نے آپ کی شخصیت کو دوسروں سے مختلف اور متاثر کرنے والا پایا دراصل آپ سے ملاقات مجھ جیسے نالائق کے ساتھ آپ کا تعلق جڑ نا تھا کہ یہ سب پرودگار عالم کا کرم تھا اور میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے آپ کی رفاقت نصیب ہوئی،حافظ صاحب سے جوں جوں تعلق گہرا ہوتا گیا۔ میری زندگی میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ آپ کی دعاؤں سے بڑے کام سنور جاتے ہیں ۔ آپ ہمارے لئے استادِمحترم اور روحانی باپ کی طرح ہم پر شفقت فرماتے ہیں آپ نے دینی اور دنیاوی لحاظ سے ہمیشہ ہماری اصلاح فرمائی جس سے زندگی میں رہنمائی ملی۔ حافظ سلمان صاحب کی ایک صفت یہ ہے کہ آپ اللہ کی مخلوق کی خدمت اور لوگوں کے کام آنے میں بےلوث مصروف ِعمل رہنا پسند فرماتے ہیں ۔ یہ فقیر ہوتے ہیں جو کہ دیتے ہیں لیتے نہیں ، بلکہ جواِنہیں اللہ کی طرف سے عطاء کیا گیاہے اس میں سے اللہ کی مخلوق کو بانٹ کر اپنی روح کی تسکین میں مصروف ِعمل رہنا پسند فرماتے ہیں ۔ اس موقع پر مجھے ایک شعر یادآ رہا ہے۔

یہی ہے عبادت یہی ہے دین وایماں

کہ دنیا میں کام آئے انساںکے انساں

حافظ صاحب کی لکھی ہوئی تحریروں سے ہمیں رہنمائی اور فیض حاصل ہوتا ہے۔ آپ کی تحریریں کیانمایاں مقبول ہوئیں جن میں تدریسی علم سے روحانی علم ومعرفت کا حقیقی سفر کچھ غور طلب اور تلخ حقائق میری دلی دعائیں دُعاصدائے بارگا الٰہیٰ میں دور حاضر میں نعت کی اصل درسگاہ آپ کی تحریرکو پڑھ کر دلی اور روحانی سکون ملتا ہے ۔ حافظ صاحب کو اللہ کی طرف سے ایک انعام یہ بھی عطا ہے کہ آپ خَطَّاطی اتنی خوبصورتی سے فر ماتےہیں کہ انسانی عقل ورطہِ حیرت ہے ۔ایسی شاندار بے مثال اور لا جواب خطَّاطی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں اوریہاں مجھے حافظ صاحب کا ایک شعر یاد آر ہا ہے

میری دعا ہے کہ توبن کے علم کا چراغ رہے

خدا کرے سلامت تیرے علم کا کمال رہے

حافظ صاحب اللہ والے ہیں اور اللہ ہی اپنے بندوں کو اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے میری دلی دعا ہے کہ اللہ آپ کے درجات کومزید بلند کرے آپ کو روحانیت کا اعلی ٰمقام عطا فرمائے ، آپ کو صحت تندرستی کے ساتھ لمبی عمر عطافرمائے اور آپ کا سایہ ہم پر تا دیر قائم و دائم رہے۔ آپ کے اہلِ خانہ اور آپ کی اولاد کو ہمیشہ سلامت رکھے ۔ آمین ۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا