چیئرمین روئیت ہلال کمیٹی پاکستان,خطیب بادشاہی مسجد
راہ ِحق کیا ہے ؟ تعین کے لئےمعتبر ترین حوالہ اس آخری اِلہامی کتاب میں درج ہے جس کے بارے میں ربِّ کائنات عَزَّوَجَل خود فرماتا ہے کہ "ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ" (سورۃ بَقَرَۃ) یعنی’’وہ عالی مَرْتَبَت کتاب جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ، اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے سرا سر ہدایت ہے ‘سورۃ بَقَرَۃسے قبل سورۃ فَاتِحہَ جسے سورۃ ثَناء بھی کہا جاتا ہے اگرچہ اپنے نُزول کے اعتبار سے قرآن کی اَوّلین سورۃ نہیں اس کے بارِ صف قرآنِ حکیم فُرقانِ مجید کی ابتدا اس سورۃ سے کرنے کے بارے میں مُفَسِّرِین ایک حدیث کا حوالہ پیش کرتے ہیں ایسی سورۃ قرآن سے قبل نازل ہونے والے کسی بھی صحیفے یا کتاب میں نہ تھی ۔ یہ برکت و ثَناء والی سورۃ صرف اُمَّتِ محمدیہ کو وَدِیعت فرمائی گئی ، جس کے مضامین کی جامعِیَّت و کاملِیَّت کے اعتبار سے اِسے بجا طور پراُمُّ القُرْآن اوراُمُّ اْلکِتاَب بھی کہا جاتا ہے ۔ حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم ؓفرماتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو اس سورۃ کی تفسیر میں 70 اوونٹ بھر دوں ۔ اب ذرا اس سورۃ کے چند مضامین پر نظر ڈالیں کہ جسے راہ ِحق کی تلاش اور جُستُجوہے اس کی تشفّیِ کا سامان ہو سکے ۔ پہلے اس سورۃ کا مکمل ترجمہ ’’تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ، روزِ جَزا کا مالک، (اے اللہ) ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ، ہمیں سیدھا راستہ (صراطِ مستقیم ) دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا نہ کہ ان لوگوں کا جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ہی بہکے ہوؤں کا‘۔‘
سورۃ فَاتِحہ کی آیت نمبر چھ ہے ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘سیدھا راستہ مطلب راہ ِحق ، جو تیری عطا کے بنا ممکن نہیں ۔ یہ ان کے لئے تو سورۃ بقرہ کی ابتدائی آیات بتلاتی ہیں ’’وہ عالیِ مرتب کتاب جس میں شک کی گنجائش نہیں ، اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے سراسر ہدایت ہے‘‘۔۔ ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘انہی کا خاصہ ہے جو اس کی جُستُجو رکھتے ہیں اور جُستُجو وہی رکھتے ہیں جنہیں ڈر ہے کہ کہیں بھٹک نہ جائیں ۔اس ضِمْن میں مُفَسِّرِین ایک مثال بھی پیش کرتے ہیں اِبلیس کی جس نے 9 کروڑ برس اللہ عَزَّوَجَل کی عبادت کی اور جن ہونے کے باوجود ملائکہ کا مُعَلمِ مقرّر ہوا اللہ کی خفیہ تدبیر سے غافل ہوکرمتکبّر ہو گیا ۔ خدائےلَم یَزَل نے جب ملائکہ کو حضرت آدم عليہِ السَّلام کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو اس کا غرور آڑے آگیا بولا ’’میں سجدہ نہ کروں گا کہ مجھے آگ سے پیدا کیا گیا اور آدم کو مٹی سے ‘‘بھول گیا حکم کس کا تھا۔ یہاں علما ء ِکرام نے نکتہ آفرینی فرمائی ہےکہ ’’بے شک صراطِ مستقیم پر چلانا بھی اللہ تعالیٰ عَزَّوَجَل کے کرم سے ہے ۔ اس نے چلایا تو اِبلیس 9 کروڑ سال صراطِ مستقیم پر چلا لیکن جب اس نے چاہا تو لمحہ بھر میں اِبلیس راندہ درگاہ ہو گیا اور اب ہر کسی کی لعنت کا مَستُوجِب ہے‘‘
سورۃ فاتحہ ہی میں راہِ راست یا صراطِ مستقیم صَراحَت ہے ، آیت نمبر 7 اس ضِمن میں بتاتی ہے ’’ راستہ اُن لوگوں کا جن پر تونے انعام فرمایا‘‘ ۔ کون ہیں وہ جن پر اللہ عَزَّوَجَل نے انعام فرمایا ، اس حوالے سے اِجماع ہے کہ اس میں انبیا ومرسلین ، صدیقین ، شہدا اور صالحین ہیں ۔ نماز میں اَلَتَّحِیَّات میں نبی مکرمﷺکے ساتھ عباد ِاللہ صَّالحین کو سلام عرض کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔
دنیا ان بزرگوں سے خالی نہیں،جو لوگ اللہ والے ہیں ، ان کو دیکھنے سے ہی ہمارا دل پکار اٹھتا ہے کہ یہ صُلَحاَء،اَتَّقِیَّاء اور نیک ہیں عبادت وریاضت اور ذِکرو اَذکار کی وجہ سے بندوں کا اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہوجاتا ہے اور اس کا قُربِ خاص نصیب ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں انہیں اللہ تعالیٰ سے ایسی نسبت حاصل ہوتی ہے جو دوسروں کو نہیں ہوتی۔اس قربِ خاص اور نسبت کی وجہ سے ان پر رحمتِ الٰہی کے ایسے انوار و برکات نازل ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر بے ساختہ اللہ یاد آجاتا ہے۔عبادت اور کمال تعلق کی بنیادپر وہ ایسے درجے پر فائز ہوجاتے ہیں کہ ان کے اَحوال و کردار ،عَادات و اطوار اور حرکات و سکنات پر انوار و آثار الٰہی صاف طور پر ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے چہرے پر عبادت گزاری ، کثرتِ سجدہ ،اِتبَّاَعِ سُنَّت وشریعت کی وہ علامتیں ظاہر ہوتی ہیں کہ جب ان کے حُسن و جمال اور چہرے کی چمک پر نظر پڑتی ہے تو دل میں اللہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو کا ملِ عَبُودِیَّت کے حامل ، کائنات اِنسانی کا خلاصہ اور انوار الٰہی کے مظہر ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے بہتر اور اچھے لوگوں کی یہ پہچان بتائی کہ ان کے کردار اور اوصاف ایسے ہوں کہ ان کو دیکھنے سے آخرت یاد آجاتی ہو۔ اسی طرح کے اللہ کے بندے حافظ سلمان مرزا جن کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ اللہ کے نیک بندے ، ہر وقت ذکر و اذکار میں مصروف رہتے ہیں۔ اس ضِمْن میں انتہائی وقیع کاوش ’’ رَاہِ حَق کِی جُستُجُو‘‘ کے نام سے فرمائی ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی انتہائی عرق ریزی سے اللہ کے محبوب ﷺ کی بارگاہ میں پیش کردہ تہنیت کا مکمل احاطہ کرنا بندہ نا چیز کی بَسَاط سے باہر ہے ۔ آپ اِن کی تصنیف پڑھیے اور اپنے ایمان کو تازہ فرمائیے کہ انہوں نے راہ ِحَق کے بارے میں انتہائی سادگی سے سب کچھ واضح کر دیا ہے ۔
اللہ ان کی اس کاوش کو شرف ۔و۔ سند قبولیت عطا فرمائے ۔
مولانا عبدالخبیر آزاد
چیئرمین روئیت ہلال کمیٹی پاکستان
خطیب بادشاہی مسجد لاہور (22سال سے )