تدریسی علم سے روحانی علم و معرفت کا حقیقی سفر

ہم دنیاوی تعلیم پر جتنی توجہ وقت اور اہمیت دیتے ہیں میں یقین اوربڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں ہم اس سے اتنا استفادہ بالکل حاصل نہیں کر پا رہے اس کی ویسے تو بہت سی وجوہات ہیں پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہم اس کو مادی تعلیم کے طور پر حاصل کرتے ہیں جس سے ہمارا مقصد صرف ڈگری کا حصول اور اس سے ذریعہ معاش حاصل کرنا ہے کیونکہ یہ دور جس میں ہم لمحہ ِموجود میں ہیں صرف اور صرف مادیت کا دور ہے جس کی دوڑ میں ہم نہ کہ خود مصروف عمل ہیں بلکہ اپنے معصوم بچوں کو بھی اس صف میں اپنے ساتھ لا کھڑا کیا ہے کہ جیسے ہی کوئی نومولود ہمارے ہاں واردہوتا ہے تو ہم بھی جھٹ پٹ کسی اچھی نامی گرامی دنیاوی تعلیمی درسگاہ میں اس کے نام کا اندراج کرواتے ہیں تاکہ اسےوقتِ مقررہ پر با آسانی تعلیمی سال کی ابتدا سے ہی حصول ِ تعلیم میں سہولت میسرآسکےاور ہمیں دنیاوی دوڑ میں نیک نامی بھی حاصل ہو جائے کہ ہم نے اپنے بچے کو کسی مشہور درسگاہ میں داخل کروالیا۔حالانکہ حقیت تو یہ ہے کہ جس چیز کا وعدہ اللہ نے ہم سے کیا ہے کہ تمہارا رزق تمہیں تلاش کرکے تم تک پہنچے گا یہ اللہ کا وعدہ ہے پھر بھی ہماری زندگی کی ساری تلاش اور کوششیں رزق کی تلاش کے گرد گھومتی ہیں ۔ اور جس چیز کا حکم اور جس کی تلاش اور کوشش اللہ نے کہا ہے اس پر ہماری کوئی توجہ نہیں ہے جس کے لئے ہمیں اس دنیا میں بھیجا گیا اور یہ ہماری ایمان کی کمزوری ہے کاش ہم یہ چیز پرندوں سے ہی سیکھ لیں آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ پرندے روز صبح نکلتے ہیں پورا دن گزارتے ہیں کوئی بھوکا واپس نہیں آتا اور کوئی دوسرے دن کے لئے کچھ ساتھ جمع کر کے نہیں لاتا یہ ان کے ایمان اور یقین کی مضبوطی ہے جو ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے کیونکہ ہمارا بس چلے تو ہم ہر وقت ذخیرہ کرنے میں مصروف رہیں اور ہم روحانی علم کی بات کریں تو کمال یہ ہےکہ اس کی ویسے کسی باقاعدہ سکول ، کالج، یونیورسٹی میں تعلیم نہیں دی جاتی نہ ہی کوئی ڈگری وغیرہ ہے لیکن اللہ ربُّ الْعِزَّت نے اس روحانی علم کو ایسے اساتذہ کے روپ میں جو کوئی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں نہیں رکھتے ، دنیاوی بڑے بڑے نام نہیں رکھتے لیکن اللہ کے ہاں ان کے لئے عطا کردہ مقام ہے جو وہ ضرور رکھتے ہیں جو ایک درویش فقیری سفید پوشی کی دنیا کے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں لوگ بابا جی سائیں جی اللہ والے وغیرہ کے ناموں سے خود منسوب کر لیتے ہیں وہ صرف اپنے آپ کو عام آدمی ہی کہلوانا پسند کرتے ہیں اللہ والے بھی کہلوانا پسند نہیں کرتے کیوں کہ نہ تو یہ دنیا دار ہوتے ہیں نہ انہیں دنیا والوں سے کسی قسم کی کوئی طلب ہوتی ہے نہ کوئی دنیاوی طمع یا لالچ ہوتی ہے ان کا کھانا پینا انتہائی سادہ ہوتا ہے یہ زندہ رہنے کے لئے کھاتے ہیں یہ کھانے کے لئے زندہ نہیں رہتے ۔ کچھ لوگ جنہیں عام طور پر لوگ عقل کے اندھے کہتے ہیں میں اپنی اصطلاح میں انہیں آنکھوں کے اندھے کہتا ہوں جو موسیقی کو روح کی غذا کہتے ہیں جس کام میں ہم شیطان کو خوش کرتے ہیں بھلا وہ روح کی غذا کیسے ہو سکتی ہے جو چیز روح کو بے چین اور طبیعت میں ہیجان اور اضطراب پیدا کرے اس میں روح کو سکون کیسے ملے گا روح کی غذا تو ذکرِ الٰہی میں ہے ہم ان برگزیدہ شخصیات کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں اتنا سادہ خوبصورت اور با معنی جواب مل جائے گا کہ ذکرِ الٰہی اور ریاضت ہی روح کی غذا ہے اور مخلوقِ خدا کی خدمت اس کا بنانا سنوارنا اور اس کی نشونما کرنا اور اس کی نوک پلک درست کرنا اس کی آرائش اور زیبائش کرنا اس کی خوبصورتی میں مزید نکھار پیدا کرنا چونکہ یہ سب کام اللہ کو راضی کرنے کے لئے کیے جا رہے ہیں اس لئے اس کو آپ حسین انداز میں اس لئے کرتے ہیں کہ اَللہُ جَمِیْلْ وَ یحُبُّ الْجَمَالْکہ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے یہ اللہ کی رضا کے لئے مخلوق کی تربیت اور خدمت میں بے لوث مصروف ِ عمل رہنا پسند کرتے ہیں یہ وہ فقیر ہوتے ہیں جو کچھ لیتے نہیں بلکہ دیتے ہیں جو انہیں اللہ نے عطاکیا ہے وہ اس کی مخلوق کو بانٹ کر اپنی روح کی تسکین میں مصروفِ عمل ہیں صرف اس کی رضا کے حصول کے لئے کہ وہ ان سے راضی ہو جائے ان کا اٹھنا بیٹھنا لیٹنا اور اوڑھنا بچھونا رضائے الٰہی سے ہی منسوب ہے ان کی روز مرہ زندگی آپ کو ہر سُو عمل سے عبارت نظر آتی ہے ۔ ان کی زندگی بہت سادہ اور وہ بہت حلیم الطبع ہوتےہیں ۔ یہ آسان اور سادہ انداز میں آپ کی تربیت فرماتے ہیں جوشاید کتابوں سے مدتوں میں بھی ہم ایسی رہنمائی نہ حاصل کر پائیں۔فقیری کی کیا بات ہے اور کیا تربیت کا انداز ہے ایک عقیدت مند نےایک بر گزیدہ شخصیت سے عرض کیا کہ ایک بار دل کی بات ماننے کی اجازت عطا فرما دیں کیونکہ آپ نے فرمایا ہوا تھا کہ صرف اللہ کی ماننی ہے دل کی نہیں ماننی تو آپ اللہ کی برگزیدہ شخصیت فقیری لائن سے تعلق آپ نے کتابی حکم صادر نہیں فرمایا بلکہ آپ نے اجازت بھی دے دی لیکن علم سے عمل کرنے کا کیا خوبصورت انداز پیش فرمایا۔ چلو ٹھیک ہے آپکا دل جو کہے بیشک کر لینا مگر آپ نے جو بھی کرنا ہے کسی ایسی جگہ کر نا ہے جہاں اللہ آپ کو دیکھ نہ رہا ہو یا جہاں اللہ موجود نہ ہو تو عقیدت مند اور عقیدت سے لبریز ہو کر اور لا جواب ہو گیا پھر ایسی خواہش کا اظہار کبھی دوبارہ نہ کیا ۔ یہ ہوتی ہیں اللہ والوں کی باتیں ۔ اس سے اس بات کی طرف بھر پور توجہ بھی دلوادی کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے ۔ کسی سیاہ رات کی تاریکی میں سیاہ پہاڑ کی سیاہ چٹان کے نیچے سیاہ پتھر کے نیچے ایک سیاہ چیونٹی کو بھی دیکھ رہا ہے اور رزق بھی فراہم کر رہا ہے اور اسے ایک لمحے کے لئے بھی اونگھ نہیں آتی وہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر لمحہ اپنی تمام مخلوقات سے با خبر ہے ۔ اللہ ربُّ الْعِزَّت ہمیں روحانی علم سے روشناس بھی کرے اور روح کی بالیدگی میں اضافہ فرمائے آمین۔کہتے ہیں اچھی صحبت میں بیٹھنے سے آپ اچھائی سیکھتے ہیں با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب اللہ ہمیں برگزیدہ ہستیوں کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی سعادت اور توفیق عطا فرمائے آمین اللہ ہم سب پر اپنا فضل و کرم فرمائے ہمیں با عمل بنائے اور ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین۔