’’اَلْحَمْدُلِلہ‘‘ کی فضیلت

تمام تعریفیں خالق کائنات اللہ ہی کیلئے ہیں یقیناً لائقِ تعریف اللہ ربُّ الْعَالمین ہے جوکہ تمام جہانوں کا اور تمام مخلوقات کا رب ہے اور اسکی تمام تخلیقات اپنی مثال آپ ہیں اور ہر تخلیق ایک سے بڑھ کر ایک ہے اور ہر تخلیق کی تعریف دراصل تخلیق کار کی تعریف ہے جو ان تمام تخلیقات کا خالق اللہ ربُّ الْعَالمین ہے اور اللہ کی تمام مخلوقات میں سے اشرفُ المخلوقات انسان ہیں ہماری کتنی خوش قسمتی ہے اللہ نے ہمیں اشرفُ المخلوقات میں تخلیق کیا یہی شکرگزاری کے لئے کوئی معمولی بات نہیں اور اس سے بڑھ کر اللہ نے ہمیں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا کیا یہ دوسری بڑی شکر گزاری کی بات ہے اور اس سے بھی بڑھ کر شکر گزاری کی بات یہ ہے کہ ہمیں حضور نبی کریم ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا اور اَلْحَمْدُ لِلہ ہمیں کسی جسمانی معزوری کے بغیر پیدا فرمایا اور یہ سب اللہ کی کرم نوازی اور عنایت ہے کیونکہ کسی شخص کی اس کائنات میں تخلیق اسکی خواہش اور اسکی منشا سے نہیں ہوئی یہ صرف اور صرف خالقِ کائنات کے فیصلے ہیں کہ کس روح کو کب کہاں کس بر اعظم کے کس ملک کس شہر کس گاؤں کے کس محلے کس مذہبی گھرانے کن والدین کے گھر میں پیدا فرمانا ہے اس میں پیدا ہونے والے انسان کے پاس کوئی انتخاب یا مرضی نہیں ہے کہ وہ کہاں پیدا ہو اور اسکے والدین کون ہوں تو اس پر بھی ہم اللہ کے بے حد شکر گزار ہیں کہ اللہ نے ہمیں مسلمان والدین کے گھر میں پیدا فرمایا اور سب سے بڑھ کر ہماری خوش نصیبی کے ہمیں حضورﷺ کے اُمَّتیوں میں پیدا فرمایا اس پر تو ہم ہر لمحہ سجدہء شکر ادا کریں تب بھی شکر گزاری کا حق ادا نہیں ہو سکتا اور یہ خوش نصیبی ہمیں آپکی شفاعت کی امید سے وابستہ کرتی ہےجو اللہ نے سوائے آپکے کسی اور کو عطا نہیں فرمائی یہ اعجاز بھی صرف آپ ہی کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔ یہاں اَلْحَمْدُ للہ کی اہمیت کو اور واضح کرنے کیلئے میں تسبیح حَضْرتِ بی بی فَاْطِمَةُ زَّہْرَا سَلَامُ‌ اللہ عَلَیْہاَ کا ذکر کرنا انتہائی موزوں سمجھتا ہوں کیونکہ اَلْحَمْدُ لِلہ اس میں بھی شامل ہےحَضْرتِ بی بی فَاْطِمَةُ زَّہْرَا سَلَامُ‌ اللہ عَلَیْہاَپانی کی مشک سے پانی بھرا کرتی تھیں آٹا چکی سے پیسا کرتی تھیں اور جھاڑو،کھانا وغیرہ خود کرتی تھیں اورچولھے اس زمانے میں لکڑی سے جلائے جاتے تھے تو پانی کی مشک کیوجہ سے آپکے جسم پر نشان پڑ گئے تھے چکی چلا چلا کر آپکے ہاتھ زخمی ہوگئے تھے تو آپکو اس حال میں کام کرتے دیکھ کر حضرتِ علی کَرَم ُاللہ وَجہہْ نے آپ سے فرمایا کہ کاش کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ اپنے بابا سے ایک عدد خدمت گزار خادمہ کیلئے درخواست فرماتیں آپکو مل جاتی تو وہ آپکے لئےیہ سب کام انجام دیتی تب آپ حضور نبی کریم ﷺ سے درخواست کیلئے تشریف لے گئیں اور آپنے کچھ صَحَابہَ کَرَامْ رِضْوَانَ اللہِ علَیِھْمْ اَجْمَعیِنْ کو موجود دیکھا تو آپ بغیر عرض کیے واپس تشریف لے آئیں لیکن حضور نبی کریمﷺ نے آپکو دیکھ لیا تھا کہ آپ کوئی بات کرنا چاہتی ہیں جسکے لئے آپ تشریف لائی تھیں جب صَحَابہَ کَرَامْ رِضْوَانَ اللہِ علَیِھْمْ اَجْمَعیِنْ تشریف لے گئے تو حضور نبی کریمﷺخودحَضْرتِ بی بی فَاْطِمَةُ زَّہْرَا سَلَامُ‌ اللہ عَلَیْہاَ کہ گھر کے دروازے پر تشریف لائے اور آپنےٱلسَّلَامُ عَلَيْكُم ایک بار کہا کوئی جواب نہ ملا دوسری بار فرمایا لیکن جواب نہ ملا باوجود اسکے کہ حضرتِ علی کَرَم ُاللہ وَجہہ اورحَضْرتِ بی بی فَاْطِمَةُ زَّہْرَا سَلَامُ‌ اللہ عَلَیْہاَدونوں موجود تھے لیکن آپکو یہ بات کرنے میں شرم و حیا محسوس ہو رہی تھی جب آپنے تیسری بار سلام کیا تو آپنے فرمایا کہ ہمیں یہ ڈر پیدا ہوا کہ آپ واپس تشریف نہ لے جائیں کیونکہ نبیِ کریمﷺ کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ آپ کسی کے گھر تشریف لے جاتے تو آپ تین بار سلام کرتے انتظار فرماتے اور اگر کوئی جواب نہ ملتا تو آپ واپس تشریف لے جاتے اس لیے حضرتِ علی کَرَم ُاللہ وَجہہ نے سلام کا جواب بھی دیا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپ تشریف لے آئیے تو آپ اندر تشریف لائے اور دریافت فرمایا بیٹی کل آپ میرے پاس آئیں تھیں کوئی کام تھا توحَضْرتِ بی بی فَاْطِمَةُ زَّہْرَا سَلَامُ‌ اللہ عَلَیْہاَنے شرم و حیا کیوجہ سے کوئی جواب نہ دیا تو حضرتِ علی کَرَم ُاللہ وَجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ میں بتاتا ہوں کہ آپکے پاس کیوں تشریف لائی تھیں کیونکہ بی بی فَاْطِمَةُ زَّہْرَا سَلَامُ‌ اللہ عَلَیْہاَ کے مشکیزے سے پانی بھرنے سے جسم پر نشان پڑگئے ہیں چکی پر آٹا پیسنے سے ہاتھ زخمی ہیں جھاڑو کھانا تمام کام آپ خود کرتی ہیں تو میں نے کہا کاش آپ اپنے بابا سے درخواست کر کے گھر کے کاموں کیلئے ایک خادمہ کیلئے عرض کرتیں کہ وہ خادمہ آپکے لئے یہ تمام کام انجام دیتی۔ یہ تمام بات سننے کے بعد اللہ کے رسول نبیِ کریم خَاتَمُ النَّبِّیِیِن رَحْمَتُ اللَّعْاَ لَمیِنْ رَسُولَ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تمہیں ایسا عمل بتاؤں جو خادمہ سے زیادہ بہتر ہو جب آپ سونے کا ارادہ کریں تو ٣٣ بار سُبْحَانَ الله ٣٣ بار اَلْحَمْدُ لِلہ اور ٣٤ بار اللهُ اَكْبَر پڑھا کریں بی بی فَاْطِمَةُ زَّہْرَا سَلَامُ‌ اللہ عَلَیْہاَا نے تین مر تبہ فرمایا میں اللہ اور اللہ کے رسول سے راضی ہوگئی آپ اسکو باقاعدگی سے پڑھتی رہیں اور آپنے اسکے لیئے ایک دھاگے سے تسبیح بھی بنالی اور آپ اسے ہمیشہ پڑھتی رہیں اس سے بخوبی تسبیح بی بی فَاْطِمَةُ زَّہْرَا سَلَامُ‌ اللہ عَلَیْہاَاور اَلْحَمْدُ للہ جو اس تسبیح کا بھی حصہ ہے اور بتانے والے اللہ کے حبیب رسول اللہ ﷺ ہوں جن کو بتائی گئی وہ عظیم ہستی حضور کی عزیز ترین بیٹی بی بی فَاْطِمَةُ زَّہْرَا سَلَامُ‌ اللہ عَلَیْہاَخاتون جنت ہیں اس سے بڑھ کر اسکی اہمیت اور کیا بیان کی جاسکتی ہے میرا ایمان ہے ہم اس پورے واقعے کو زہن میں رکھ کر اس تسبیح کو پڑھنے کی مستقل عادت اپنائیں اس سے ثواب اور فوائد دونوں حاصل ہونگے اور ان ہستیوں کی نسبت کے طفیل ہم اس سے مزید فیضیاب ہو سکتے ہیں اس سے ہماری نسبت اور روحانی تعلق ان ہستیوں سے اور گہرا غیر متزلزل اور مضبوط ہوگا اور ہمارے دلوں میں انکی ایمان افروز یادیں ہمیشہ تازگی کے ساتھ قائم و دائم رہیں گی انشااللہ۔ اللہ اپنی مخلوق سے اور اپنے بندوں سے یہ چاہتا ہے کہ اسکا بندہ اسکی شان بیان کرے اسکی بڑائی بیان کرےاور اسکی تعریف اور شکر گزاری بجا لائے اللہ ہمارا خالق مالک و رازق ہے جسکی ہم پر بے پناہ عنایات ہیں اور وہ ہمیں زندہ رہنے کیلئے ہوا پانی ہی اگر یوں مفت فراوانی سے فراہم نہ فرماتا تو ہمارا زندہ رہنا ممکن نہیں تھا اور اگر یہ قیمتاًملتا تو امراء اسکو بھی زخیرہ کرلیتے اور غریب اسکے لیئے ترستا یہ بھی اللہ کا انسان پر کتنا کرم ہے کہ اسنے آب و ہوا اوررزق اپنے ہی قبضہء قدرت میں رکھا ہے اس پر بھی جتنی شکر گزاری کیجائے کم ہےاللہ اپنے شکر گزاروں سے خوش بھی ہوتا ہے اور مزید اپنے انعام و اکرام سے نوازتا ہے اور نا شکروں پر اپنے انعام و اکرام میں کمی فرما دیتا ہےاور سزا وار بھی ٹھراتا ہے ۔اللہ کا یہ فرمان ہے کہ ہر حال میں اللہ کی شکر گزاری کرو۔عربی میں اسے کہتے ہیں اَلْحَمْدُ للہ علیٰ کُلِّ حَالْ اسی نسبت سے قرآن پاک کی سورة اِبْرَا ہِیْم سورة نمبر ١٤ آيت نمبر ٧ میں اللہ نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ Holy Quran 14:7 وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ترجمہ :’’اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ اس آیت کی روشنی میں ہمیں اس بات کا بخوبی خیال رکھنا چاہیے کے ہم پر اللہ کے بے پناہ انعامات اور احسانات ہیں جن پر ہمیں ہر لمحہ اور ہر حال میں اللہ کی شکر گزاری کرنی چاہیئے کیونکہ انسان کو اللہ نے لالچی نا شکرا اور بے صبرا اور جھگڑالو کہا ہے یہ سب قرآن میں اللہ نے انسان کیلئے کہا ہے در اصل انسان ہر وقت بہت سی چیزوں کے نہ ہونے کی شکایت کرتا رہتا ہےصبرو قناعت اور شکر گزاری سے کام نہیں لیتا جو اس کے پاس موجود ہوتا ہے اس پر اللہ کی شکر گزاری نہیں کرتا اور نہ ہونے کی شکایتیں کرتا رہتا ہے اور بجائے اپنے سے نیچے لوگوں کو دیکھنے کے اپنے سے اوپر والوں کو دیکھتا ہے کہ فلاں کے پاس یہ چیز ہے میرے پاس نہیں ہے ظاہر ہے انسان کی خوب سے خوب تر کی تو کوئی انتہا نہیں ہوتی انسان کو صبرو قناعت شکرگزاری سے کام لینا چاہیے اسی لئے دین میں میانہ روی قناعت بتائی گئی ہے بے جا اور فضول اسراف سے منع کیا ہے انسان اگر اپنی نظریں اُوپر کی طرف رکھے گا تو ہمیشہ احساس کمتری اور نہ ہونے کی شکایت کرے گا اور اس سے نا شکری جنم لیتی ہے اور اگر اپنے سے نیچے دیکھے گا تو اطمینان محسوس کریگا اور اپنے پاس نہ ہونے کی بجائے ہونے کا احساس پیدا ہوگا جو اسے شکر گزاری کی جانب مائل کرے گا مثلاً اگر آپ سائیکل سوار ہیں تو آپ اپنے سے اُوپر دیکھیں گے گاڑی والے شخص کو اور آپ یہ سوچنے لگ جائیںکے اسکے پاس تو کار ہے اور میں سائیکل پر ہوں تو آپکو احساس کمتری ہونا شروع ہوجائےگی اور ناشکری پیدا ہوگی اور اگر آپ نیچے پیدل چلنے والے کو دیکھیں گے تو اللہ کا شکر ادا کریں گے کہ اس شخص کے پاس تو سائیکل بھی نہیں ہے اَلْحَمْدُ لِلہ مجھے اللہ نے سائیکل دی ہوئی ہے اور آپ شکر ادا کریں گے اس لئےآپ ہمیشہ آدھا گلاس بھرا ہوا دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا کریں کہ اَلْحَمْدُ لِلہ میرے پاس آدھا گلاس بھرا ہوا ہے کبھی آدھا خالی کا خیال دل میں نہ لائیں انسان جو اسکے پاس موجود ہو اس پر خوش بھی ہو اور شکر گزار بھی ہو کہ اَلْحَمْدُ لِلہ میرے پاس یہ موجود ہے اس کے لئے شکر گزار ہوں بجائے اسکے کہ زندگی بھر نہ ہونے کی شکایت کرتے رہیں اور جو ہے اس سے خوشی کیساتھ شکر گزاری کیساتھ زندگی کا بہتر وقت گزاریں کیونکہ وقت تو گزارنا ہی ہے رو کر نا شکری سے گزاریں اور گناہ گار بھی ہوں یا خوشی سے گزاریں اور شکر گزاروں اور انعام پانیوالوں میں شامل ہوں یہ اللہ کا حکم ہے کہ ہر حال میں اللہ کی شکر گزاری کرو اور اسی کے بارے میں قرآن کی اُوپر درج یہ آیت ترجمے کے ساتھ پیش ہے جس میں اللہ نے مزید انعام و اکرام کا راستہ بتا دیا اور ناشکری کرو گے تو سختیاں اور عزاب کی وعید ہے اللہ ہمیں نا شکری سے محفوظ فرمائے اور اپنے صابر شاکر بندوں میں شامل فرمائے اور اپنے انعام پانیوالوں میں ہمارا شمار فرمائے آمین اور ہمیں قرآن و حدیث پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے اور سُنَّتِ نبویﷺ کیمطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق اور استطاعت عطا فرمائے آمین ثُمّ آمین