دُنیا کیونکر اور کیسے وجود میں آئی

حدیث قدسی ہے کہ اللہ نے چاہا کہ میں جانا جائوں اور پہچانا جائوں تو اللہ ربُّ الْعِزَّت نے تمام کائنات اور عالم بنانے کا خیال فرمایا پھر ان دنیائوں کے ڈھانچوں کے آباد کرنے کے لئے تمام عالموں کے ساتھ ساتھ ایک عالم ارواح بھی بنانے کا ارادہ فرمایا جس میں ایک بہت ہی خاص روح اور ایک ایسی ہستی کا ارادہ فرمایا جو اللہ کی پہچان کروائےکیونکہ اللہ کی تعریف اور پہچان کے لئے انسانوں ہی میں کوئی ہستی ایسی خاص ہوتی جو خود بھی لائقِ تعریف ہونی چاہیے تھی کہ جسکا تعارف اور پہچان کروانا ہے اسکے شایان شان ہو تو اللہ نے سب سے پہلے اپنے نور سے جس روح اور جس ہستی کی تخلیق فرمائی جوکہ اسی نسبت سے جو اللہ کی خاص عطا کردہ ہے نور بھی ہیں اور بشر بھی ہیں اس روح کو آسمانوں اور عرش میں مدتوں رکھا اور نام بھی احمدعطا کیا جس کا مطلب ہے سب سے زیادہ تعریف کرنے والا تو اللہ نے ایسی صفت سے بھی نوازا کے نہ اس سے پہلے کسی نےاتنی اللہ کی عبادت اور تعر یف کی تھی نہ کبھی اسکے بعد قیامت تک کوئی کریگا جب اللہ نے آپکو اس عبادت ریاضت اور تعریف کی مشق سے گزار کر ایک مثال بنا دیا جیسا اللہ نے آپکے بارے میں سوچا اور چاہا تھا ۔تب اللہ نے حکم فرمایا کُنْ ہو جا اور فَیَکُوْن اور ہو گیا اور تمام عالم جو اللہ نے چاہا پل میں وقوع پزیر ہو گئے اور ایسے اللہ ربُّ الْعِزَّت کی یہ تمام تخلیقات وجود میں آئیں اللہ کی سب سے محبوب اور خوبصورت تخلیق حضور نبی کریم احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ایک نعت کے شعر میں شاعر نے کیا خوب لکھا ہے کہ مصور نے ایسی تصویر تخلیق کی کہ خود بھی مسرور ہورہا ہے۔ جسکی تصدیق قرآن پاک کی آیت کرتی ہے جسکا ترجمہ یہ ہے کہ بیشک اللہ اور فرشتے حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دَرُود و سلام بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی حضور ﷺپر دَرُودِ و سلام بھیجو جیسے کے بھیجنے کا حق ہے ۔اگر اللہ کو خود اپنی تخلیق اتنی پسند نہ ہوتی تو اللہ خود حضور کی شان میں کیوں دَرُود و سلام بھیجتا یہ اسکا ثبوت ہے کہ اللہ کو اپنی سب سے خوبصورت تخلیق انسان اور انسانوں میں خوبصورت ترین محبوب اللہ کے رسول ﷺ کی تخلیق سراپا حسن وجمال صورت و سیرت جنکی شان میں قرآن نازل ہوا ہو انکی تعریف کے لیئے کون آپکے شایان شان الفاظ لا سکتا ہے اللہ نے آپکی تخلیق بحیثیت بشر دنیا میں کی تو آپکا یہ نام محمد ﷺ بھی اللہ کا عطا کردہ نام ہے جسکے معنی ہیں جسکی سب سے زیادہ تعریف ہو ظاہر ہے یہ بھی حکم ربی ہے اللہ نے ایسا چاہااللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ہم نے آپکے ذکر کو بلند کیا۔یہ بات ثابت ہے نہ آج سے پہلے آپ جتنی کسی کی تعریف ہوئی ہے نہ آج کے بعد کسی کی اتنی تعریف ہوگی کیونکہ اللہ کو اپنے محبوب سے عشق ہے وہ اسی لیے یہ چاہتا ہے کہ اسکے محبوب کی سب تعریف کریں اسکو یہ پسند ہے اسلئے اس نے سب کے لئےدنیاوی طور پر سیل لگادی کہ پڑھو گےتو تمہارا فائدہ ہی فائدہ ہے ایک بار پڑھو گے تو دس بار اللہ کی رحمتیں نازل ہونگی دس گناہ معاف ہونگے دس درجات بلند ہونگے۔ پھر اللہ نے اپنے محبوب کو وہ درجہ اور رتبہ عطا کر دیا نہ کسی کے پاس تھا نہ ہے نہ ہوگا جوکہ اللہ کا عطا کردہ ہےہم اللہ کے ساتھ اپنے حضور ﷺ کانام لیئے بغیر مسلمان ہی نہیں ہو سکتے پھر قرآن میں فرما دیا اگر میری اطاعت کرنی ہے تو پہلے میرے حبیب کی اطاعت کرو مجھ تک آنے کا راستہ میرے حبیب سے ہو کر ہی میری اطاعت ہے آپکو نبوت عطا کی تو 40 سال کی عمر میں لیکن اس سے قبل کی آپکی زندگی ایک مثالی نمونہ آپکو لوگ صادق اور امین کہتے تھےاللہ نے آپکو نبی آخِرْالزَّمَاں بنایا اِمَامُ الاَنْبِیَاء بنایا اللہ نے آپکو وہ تمام معجزات اور صفات عطا کیں جو آپسے قبل مختلف انبیاءکو عطا کی گئی تھیں اللہ نے آپکو شفاعت کا حق بھی تفویض فرمایا جو کسی کو آپ سے قبل نہیں ملا جو آپ روز محشر استعمال کریں گےاور سب سے خاص بات کہ اللہ کے اور بندے کے درمیان 99 پردے حائل ہیں جو اللہ کے صفاتی اسماء ہیں اللہ جیسے چاہتا ہے وہ پردے ہٹاتا چلا جاتا ہےاللہ نے اپنے حبیب کو بےشمار علم سے نوازا اور سب پردے ہٹائے اللہ کے بعد دنیا میں آپ سے بڑھ کر علم کسی کے پاس نہیں یہاں تک کے حضرت مُوسٰی اللہ کے بہت لاڈلے تھے اللہ کا دیدار کرنے کی جب خواہش کی تو اللہ نے انکار فرمادیا لیکن لاڈلے تھے ضد کی اللہ نے فر مایا کہ اچھا میں اس پہاڑ پر اپنی تجلی کرواتا ہوں اگر پہاڑ تاب نہ لا سکا تو آپ نہیں لا سکیں گے وہی ہوا جو اللہ نے فرمایا پہاڑ (کوہ طور)نہ سہ سکا اور جل کر راکھ ہوگیا حضرت مُوسٰی نے اللہ سے توبہ کر لی دوبارہ کبھی خواہش نہ کی اللہ نے حضور کو ہر چیز میں سب سے بڑھ کر فضلیت عطا فرمائی حتّٰی کہ علم میں فضیلت کااپنے خود اظہار کیا آپ کا فرمان تھا حضرت علی کَرَمَ اللَّہُ وَجْہَہ علم کا دروازہ ہیں میں علم کا شہر ہوں اللہ نے اپنے بعد سب سے زیادہ علم آپکو عطا کیا اورآپکو بن مانگے اپنے بےپناہ انعامات سے نوازا آپنے جب بھی مانگا اپنی امت کےلئےمانگا اور رو رو کر مانگا اللہ نے اپنی عطا کی انتہا تو تب فرمادی جب اللہ نے آپکو بن مانگے ملاقات کے لئے واقعہ معراج رونما فرمایااور آپکو وہ معراج عطا فرمادی جو آپ سے پہلے کے لوگوں اور آنےوالے لوگوں کیلیئے مثال بنا دی۔ یہ معراج تو اک بہانہ تھا اللہ نے بس آپکو ملاقات کے لئے بلانا تھااوراللہ کا دیدار نہ آپسے پہلے کسی نے کیا نہ کر پائےگا جیسے اللہ نے جس اہتمام سے آپ کو کروایا اللہ کے اور بندے کے درمیان یہ آخری پردہ ہے وہ بھی دور فرما تے ہوئے اپنا دیدار نصیب فرمایا اور اپنے پاس سِدْرَةِ المُنْتَهٰی تک بلایا اور فاصلے کیسے سمیٹ دیئے قرآن میں لفظ استعمال ہوئے ہیں قَابَ قَوسَین تیر کی کمان اور دونوں ابرو کے درمیان کا فاصلہ کہ اللہ نے فرمایا کہ آپ اور قریب آ جائیں جبکہ اتنےجَلیْلُ الْقدْر فرشتے جو آپکو شب معراج پر ساتھ اللہ کے حکم سے لیکر گئے سِدْرَةِ المُنْتَهٰی پر آپ نے بھی فرما دیا یا رسول اللہ اس سے آگے میرے پر جلتے ہیں کیا شان ہے اللہ کے محبوب کی اور کیا مقام ہے آپکا اور کیسے اس کائنات کی تخلیق اور یہ کیسے آپکے لیئے سجائی گئی اور اسکے تمام رنگ و نور آپ ہی کی متاع سےلیتے ہیں روشنی کیا سورج چاند اور ستارے یہ سب منور ہیں آپسے ورنہ یہ سب کچھ بے رنگ ہوتا ۔ آپ ایسی ہستی ہیں جنکی مثال کسی بھی شے سے نہیں دی جاسکتی ۔اللہ نے چاند بھی کتنی خوبصورت چیز بنائی ہے کہ دنیا میں ہم کسی کی خوبصورتی کو بیان کرنے کیلئے چاند سے تشبیہ دے دیتے ہیں ۔لیکن ایک شاعر نے نعت کے ایک شعر میں کیا خوب پاکیزگی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےآپکو چاندسے تشبیہ دینا بھی کوئی انصاف ہے کیونکہ چاند کے چہرے پہ چھائیاں ہیں اور رسول مدنیﷺ کا چہرہ صاف ہے ۔ اللہ نے جیسے آپکو افضل رکھا ایسے ہی کتنی خوش نصیب ہے آپکی امت کہ وہ بھی آپکی نسبت سےسب سے بہترین امت قرار پائی ؕسب سے افضل ہوئی آپکی کیا شان ہے کہ اللہ ربُّ الْعِزَّت نے جب آپکو اس فانی دنیا سے ہمیشہ کیلئے بلانا تھا تب بھی انداز سب سے جداگانہ تھا حضرت جبرائیل کو بھیجااس پیغام کے ساتھ کہ اللہ آپ سے ملاقات چاہتے ہیں پھر کبھی جدا نہ ہونے کے لئے حضور نبی کریم کو اور کیا چاہیے تھا کیونکہ اللہ اپنے محبوب سے ملاقات چاہے اور محبوب نہ چاہے بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے لیکن اس وقت بھی اپنی امت کا ہی خیال اور فکر لاحق تھی آپ نے عرض کیا اللہ سے پوچھ کر آئیں کہ میری اُمت کا کیا بنے گا اسکا خیال کون کریگا اللہ نے فرمایا کہ اللہ آپکی امت کا خیال کرےگا اور یہی تو وجہ ہےکہ ہم میں تمام امتوں کی مجموعہ برائیاں موجود ہیں لیکن اللہ نے اس وعدے کیوجہ سے جو اپنے محبوب سے کیا تھا نہ تو دوسری امتوں کی طرح غرق کیا نہ شکلیں تبدیل فرمائیں بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ اپنا رحم اور کرم یونہی ہم پر نچھاور رکھےآمین اور اللہ نے شفاعت کا حق بھی آپکے علاوہ کسی کو تفویض نہیں کیا دراصل موضوع اتنا وسیع ہے اور اتنے مختصر وقت اور مختصر تحریر میں تو کسی عام ہستی کے بارے میں تحریر کرنا یا اسکا احاطہ کرنا ممکن نہیں اور جہاں ہستی محبوب ربانی ہو کون انکے شایان شان ایک لفظ بھی تحریر کرنے کی جسارت کرے اورجنکی تعریف خود خدا نے کی قرآن کے سپاروں میں کی ہےان کی شان انسان کے بس کی بات کہاں

لفظ بے بس زبان ہے معزور

ہم سے ذکر رسولﷺ کیا ہوگا

ہو کنارہ نہ جس سمندر کا وہ سمندر عبور کیا ہو گا

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آپکی شفاعت نصیب فرمائے اللہ ہم سب کو راہ ہدایت قرآن حدیث کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اور سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین