پروردگار سے دل کی دعائیہ پکار

میری دعا ہے کہ تو بن کے علم کا چراغ رہے

خدا کرے کہ سلامت تیرے علم کا کمال رہے

یونہی لوگ تیرے علم سے فیضیاب رہیں

اور یونہی تیرے علم کو وہ اور با کمال کرے

تیرے نام کو لگیں اور بھی چار چاند

تیری عظمت کو اور خدا با کمال کرے

اپنی رحمت سے تیرے علم کو اور سرفراز کرے

تیرے چاہنے والوں کے علم کو بھی اور دراز کرے

تیرے علم کو عطا کرے سمندر کی گہرائی

تیرے ہنر کو عطا کرے اہلِ علم و دانش کی رہنمائی

اس کی رحمت رہے یونہی نچھاور تجھ پر

جیسے اس کے انعام ہیں یا عَلِیْمُ کے تجھ پر

تیرے علم و معرفت کو اور کرے زیادہ

تیرے فیض پانے والوں کو بھی کرے اور زیادہ

یہ بھی اس کا انعام ہوتا ہے کسی پر

تو ہے خوش نصیب کہ یہ بھی ہے تجھ پر

خدا تیری عمر کو اور دراز کرے

اپنے علم کے خزانے سے تجھ کو اور مالدار کرے

یہ بھی تو نے عِلم پہ کیا لکھ دیا حافظ

عِلم کیا عِلم ہے بندے تو عِلم کو کیا جانے

عِلم تو وہ علِم ہے جس عِلم سے بندہ خدا کو پہچانے

اللہ تجھے اس عِلم کی روشنی سے اور روشناس کرے

حافظؔ اتنا تو عِلم نہیں ہے ابھی تیرے دامن میں

اللہ اپنے نور سے تیرے عِلم کو اور فیض یاب کرے

حافظ عِلم اور حِلم تو ہے وہ عطائے ربیِّ

جو کہ انعام ہے میراث نہیں ہے کسی کی

کاش اس کی ہو جائے تجھ پر اور بھی اتنی عطا

جو تیرے قلب کو نور سے اجلا اور منور کر دے

اور اس قلب کے ہر کونے کو نور سے روشن کر دے

میرے رب میرے قلب کو ایسی تاثیر عطا کر دے

جو میری روح کو ایسا اطہر و معطر کر دے

جو میری روح کی روح کو بھی تروتازہ کر دے

جس میں ہر سمت ہو تیرے نور کا وہ ابرِ کرم کر دے

جس سے میری روح پر حضورؐ کی سیرت کو اشکار کردے

میرے رب میں تجھ سے بس اور کیا مانگوں

مجھے صرف اتنا بس اتنا اور صرف اتنا عطا کر دے

میرے رب مجھ کو ان کیفیات سے مسحور کر دے

میری زندگی کا محور اپنا نور کر دے

میرے قلب کو اپنے حرم پاک کا گھر کر دے

اور میرے قلب و جسم و جاںـ کو ان پہ قربان کر دے

حضورِپاکﷺ کے قدموں کی خاک ہی تو ہے میرا سرمایہِ حیات

اس خاک کے زرے پہ بھی جو پڑ جائے ان کی نظر

تو زرے کو بھی وہ انمول ہیرا کردے

اے میرے رب اپنی رحمت سے میرے گناہوں کا صفایہ کر دے

مجھے ان کے غلاموں کے غلاموں میں شامل کر دے

ان کی نسبت اس خطا کار کو ایسے عطا کر دے

کہ اس خطا کار کی خطاؤں کا مداوا کر دے

اور ان کے نعلین کی خاک سے اس گناہگار کو تو مس کر دے

اور اس خاک کی نسبت سے اس ذرے کو آفتاب کر دے

کاش ہوجائے ان کی نظر اس راہ میں پڑے پتھر پر

تو یہ پتھر بھی کیوں نہ ہو جائے ہیرے کی مثل

بس اس عاجز کی تو ہے یہی تمنائے آرزو

کہ نظرِ عنایت و کرم ہو اپ کی ایسے عطا

یومِ محشر میں ہو اپ کی چھتری کا سایہ و آسرا ہو عطا

میں اس میں کھو جاؤں اتنا کہ مجھے اس میں یہ محصور کر دے

جب مجھے اذنِ حضوری کی ہو آذان

تب مجھے وہ حاضری کے لئے حاضر کر دے

یا رب تیرا یہ بندہ تو ہے کمزور بے بس اور ناتواں

تیری ہی عطا ہے حافظؔ پہ یہ دعا کے چند الفاظ

اور کاش انہیں تو شرف قبولیت بھی عطا کر دے

میرے رب تو میرا خالق میرا مالک میرا آقا ہے

یہ گناہگار خطاکار اور سیاہ کار تیرا بندہ ہے

جو بھی ہوں جیسا بھی ہوں

لیکن میں بندہ تو تیرا ہوں

تیرے سوا اس بندے نے جانا ہی کہاں ہے

تو یہ کہتا ہے کہ تو ہر گناہگار کی سنتا ہے

تیرا فرمان ہے اس لئے یقین میرا یہ کہتا ہے

اس گناہگار کی فریاد کو تو امر کر دے

ورنہ کہاں حافظؔ اور کیا ہیں اعمال حافظؔ کے

کتنا خوش نصیب پھر بھی ہے تو حافظ

زندگی بھر بھیک پائی ہے تو نے اس کے در کی